Maktaba Wahhabi

98 - 249
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَثْقَلَ صَلٰوۃٍ عَلَی الْمُنَافِقِینَ صَلٰوۃُ الْعِشَآئِ وَصَلٰوۃُ الْفَجْرِ وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِیہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا)) ’’منافقوں پر بھاری نماز عشاء اور فجر کی نماز ہے اور اگر وہ جانتے کہ ان دونوں میں کیا (گناہ یا ثواب) ہے تو وہ ضرور مسجد کو آتے خواہ سرین کے بل گھسٹ کر آتے۔‘‘ اس حدیث کی صحت پر شیخین کا اتفاق ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ سمعَ النِّدائَ فلمْ یاتِ؛ فلا صلاۃَ لہ اِلاَّ مِنْ عُذر)) ’’جس نے اذان کی آواز سنی، پھر مسجد نہ آیا، اس کی نماز ادا نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ کوئی شرعی عذر ہو۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ، دارقطنی اور حاکم نے صحیح اسناد کے ساتھ نکالا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اندھا آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی مسجد تک لانے والا نہیں۔ کیا میرے لیے رخصت ہے کہ میں اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ہل تسمعُ النِّداء بالصَّلاۃ؟ قالَ: نعَمْ قالَ: فأجِب)) ’’کیا تم نماز کی اذان سنتے ہو؟ وہ کہنے لگا: ’’ہاں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو پھر مسجد میں آؤ۔‘‘ اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا۔ تو جب اندھے کے لیے جسے مسجد تک لے جانے والا کوئی نہ تھا، نماز باجماعت کے ترک کا عذر قبول نہ ہوا تو دوسروں سے کیسے ہو سکتا ہے؟ لہٰذا اے سائل! آپ پر واجب ہے کہ اللہ عزوجل سے ڈرو اور فجر اور دوسری باجماعت نمازوں پر محافظت کرو اور رات کو جلدی سوجایا کرو تاکہ تم فجر کی نماز کے لیے اٹھ سکو۔ آپ کے لیے گھر میں نماز ادا کرنا صرف اس صورت میں جائز ہے جبکہ کوئی شرعی عذر موجود ہو۔ جیسے مرض یا خوف۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق تھامنے اور اس پر جمے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Flag Counter