Maktaba Wahhabi

106 - 249
میں اپنے بھائی سے الجھ پڑا اور اسے کہا ’’اے کافر! مجھ سے دور ہو جا‘‘۔ بنیاد یہ تھثی کہ وہ تقریبات کے علاوہ کبھی نماز نہیں پڑھتا۔ اس کا کیا حکم ہے ؟ سوال: میں اور میرا بھائی کسی مسئلہ میں الجھ پڑے۔ میں نے غصہ کی حالت میں اسے کہہ دیا: اے کافر مجھ سے دور ہو جا‘‘۔ اوراس کی بنیاد یہ تھی کہ وہ نماز نہیں پڑھتا تھا ۔ صرف اپنے رشتہ داروں کی موجودگی میں تقریبات وغیرہ میں پڑھ لیتا تھا ۔اس بارے میں کیا حکم ہے ؟ اور آیا یہ بات صحیح ہے کہ وہ کافر ہے۔ ف۔ع۔ع جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بَيْنَ الْرَّجُلِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ أَوِ الشِّرْكِ تَرْكُ الصَّلاةِ)) نماز چھوڑنے سے آدمی کا کفر وشرک سے فاصلہ ختم ہو جاتا ہے ۔ اس حدیث کو مسلم نےروایت کیا اورامام احمد اوراہل السنن نےاسناد جید کے ساتھ بریدہ بن الحصیب رضی اللہ عنہ سے تخریج کی۔ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ , فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ)) ہمارے اوران کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا، اس نے کفر کیا۔ اور اس معنی پردلالت کرنے والی احادیث بہت ہیں۔ تاہم آپ کو اس صورت حال میں چاہیے یہ تھا کہ اسے کافر کہنے میں جلدی نہ کرتے۔پہلے اسے نصیحت کرتے اور بتلاتے کہ نماز کوچھوڑ دینا کفر اورگمراہی ہے ۔ اس پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور توبہ کرنا واجب ہے ۔ اس طرح شاید اسے آپ سے فائدہ پہنچ جاتا اوروہ آپ کی نصیحت قبول کر لیتا ۔ ہم اپنے اور سب مسلمانوں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ سے سب گناہوں سے سچی توبہ کی توفیق طلب کرتے ہیں ۔ ’’جو نماز میں سستی کرے، اللہ تعالیٰ اسے پندرہ سزائیں دے گا‘‘ کیایہ حدیث صحیح ہے ؟ سوال: ہمیں ایک چٹھی موصول ہوئی جس کاایک ورق تھا جو لوگوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا۔ اس ورق میں ایک حدیث بھی تھی جونبی صلی اللہ علیہ وسلم سےمنسوب تھی اوروہ یہ تھی ’’جو نماز میں سستی کرے، اللہ تعالیٰ اسے پندرہ سزائیں دے گا‘‘۔ اس ورق میں اور بھی بہت کچھ تھا۔ آپ سے اس
Flag Counter