Maktaba Wahhabi

173 - 413
اس روایت سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت عمر و بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سات مرتبہ سے زیادہ دفعہ سننے کی سعادت حاصل کی۔ تنبیہ: امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر ایک اشکال ذکر کیا ہے اور پھر خود ہی اس کا جواب بھی دیاہے۔ حضرت امام رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کیا ہے: ’’ ھٰذَا الْکَلَامُ قَدْ یَسْتَشْکِلُ مِنْ حیْثُ إِنَّ ظاھِرَہ أَنَّہ لا یَرَی التّحدیْثَ إلاَّ بِما سَمِعَہ أکْثَر مِنْ سَبْعِ مَرّاتٍ، وَمَعْلُوْمٌ أَنَّ مَنْ سَمِعَ مَرَّۃً وَاحِدَۃً جَازَ لَہُ الرِّوَایۃُ، بَلْ تَجِبُ عَلَیْہِ إِذَا تَعیَّنَ لَھا۔ وَجَوَابُہ أنّ مَعنَاہُ لَوْ لَمْ أَتَحَقَّقْہُ وَأَْجْزِمْ بِہٖ لَمَا حَدَّثْتُ بِہٖ، وَذَکَرَ الْمَرَّات بَیَانًا لِصُوْرَۃِ حَالِہٖ، وَلَمْ یُرِدْ أَنَّ ذٰلِکَ شَرْطٌ وَاللّٰہَ تَعَالیٰ أَعْلَمُ۔‘‘[1] ’’ اس کلام میں اشکال نظر آتا ہے، کیونکہ ظاہری طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت تک روایت حدیث کو درست نہ سمجھتے تھے،جب تک اس کو سات مرتبہ سے زیادہ دفعہ نہ سنا ہو اور یہ معروف بات ہے کہ ایک بار سننے کے بعد روایت کرنا جائز ہے، بلکہ روایت کے لیے متعین ہونے کی صورت میں اس کا بیان کرنا واجب ہوجاتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا مقصود یہ ہے کہ اگر مجھے اس کا حتمی یقین نہ ہوتا، تو میں اس کو بیان نہ کرتا۔ سات مرتبہ سے زیادہ کا ذکر درمیان میں اس لیے آ گیا کہ انہوں نے اس حدیث کو سات مرتبہ سے زیادہ دفعہ سُنا تھا۔ وگرنہ ان کا مقصود یہ نہ تھا کہ اتنی مرتبہ سننا روایت حدیث کے لیے شرط ہے۔ وَاللّٰہُ تَعَالیٰ اَعْلَمُ۔‘‘
Flag Counter