Maktaba Wahhabi

243 - 413
سب سے پیارا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نماز اپنے وقت پر[ادا کرنا]۔‘‘ انہوں نے دریافت کیا:’’پھر کونسا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔‘‘ انہوں نے دریافت کیا:’’پھر کونسا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ انہوں نے بیان کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان [اعمال]کے متعلق بتلایا۔ اگر میں مزید[سوالات]پوچھتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور زیادہ بتلاتے۔‘‘ اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک ہی موقع پر تین بار سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خفا نہ ہوئے، بلکہ ہر مرتبہ جواب سے نوازا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اگر ابن مسعود رضی اللہ عنہ مزید استفسارات بھی کرتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جوابات دینے کے لیے بھی تیار اور آمادہ تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے: ’’وَفِیْہِ صَبْرُ الْمُفْتِيْ وَالْمُعَلِّمِ عَلَی مَنْ یُفْتِیْہِ أَوْ یُعَلِّمُہٗ، وَاِحْتِمَالُ کَثْرَۃِ مَسَائِلِہٖ وَتَقْرِیْرَاتِہٖ۔‘‘[1] ’’ اس [حدیث]سے ثابت ہوتا ہے کہ مفتی اور معلم کو اس شخص [کی بات] پر صبر کرنا چاہیے،جسے وہ فتوی یا تعلیم دے رہا ہو،نیز سوالات اور استفسارات کی کثرت کو برداشت کرنا چاہیے۔‘‘ علامہ عینی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں : ’’وَفِیْہِ السُّؤَالُ عَنْ مَسَائِلٍ شَتَّی فِي وَقْتِ وَاحِدٍ، وَجَوَازُ
Flag Counter