خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حضرات صحابہ کو اس بات کی اجازت تھی کہ آپ کے ارشادات کے بارے میں اشکال یا الجھاؤ کی صورت میں وہ اس کو آپ کے روبرو پیش کریں اور اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم خفا نہ ہوتے، بلکہ تسلی بخش طریقے سے تشفی کرواتے۔ اس کے برعکس ہمارے بعض نیم تعلیم یافتہ پڑھانے والے اپنی کہی ہوئی اُلٹی سیدھی بات کے بارے میں سوال جواب سننے کی تاب نہیں رکھتے۔ ان کے روبرو اس [جرم عظیم]کا ارتکاب کرنے والے طالب علم کی موقع پر یا امتحان میں، یا دونوں ہی جگہ خیر نہیں۔إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اے اللہ تعالیٰ! ہمیں ایسے بد نصیب لوگوں میں شامل نہ فرمانا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلانا۔ آمین یا حي یا قیوم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
|