Maktaba Wahhabi

96 - 413
میں تفصیل بیان فرمائی۔ اس بار ے میں امام ابن منیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کیا ہے: ’’ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلَی أَنَّ الْفَصِیْحَ مِنَ الْکَلَامِ الإِجْمَالُ أَوَّلاً، ثُمَّ التَّفْسِیْرُ لِلإِجْمَالِ بَعْدَہٗ، لِأَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَجْمَلَ لَھُمْ أَوَّلاً، ثُمَّ بَعْدَ ذٰلِکَ فَسَّرَ مَا أَجْمَلَ۔ وَالْحِکْمَۃُ فِيْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ عِنْدَ الإِخْبَارِ بِالإِجْمَالِ یَحْصُلُ لِلنَّفْسِ الْمَعْرِفَۃُ بِغَایَۃِ الْمَذْکُوْرِ، ثُمَّ تَبْقَي مُتَشَوِّّقَۃً إلٰی مَعْرِفَۃِ مَعْنَاہُ، فَیَکُونُ ذٰلِکَ أَوْقَعَ فِي النَّفْسِ، وَأَعْظَمَ فِي الْفَائِدَۃِ۔‘‘[1] ’’اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے اجمال اور پھر اجمال کی تفصیل بیان کرنا فصیح گفتگو میں سے ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے بات کا اجمالاً ذکر فرمایا، پھر اس کے بعد اجمال کی تفصیل بیان فرمائی اور اس میں حکمت یہ ہے کہ اجمالی طور پر خبر دینے کی صورت میں بات کے اجمالی خاکے سے آگاہی ہو جاتی ہے، پھر دل اس کی تفصیل جاننے کے لیے مشتاق رہتا ہے، پھر وہ (تفصیلی بات)دل میں زیادہ پیوست ہو جاتی ہے اور اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ ٭ یہ حدیث جیسا کہ امام ابن منیررحمہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے : ’’ فیہ دَلِیْلٌ عَلَی فَصَاحَتِہٖ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَإِبْلاَغِہ فِيْ إِیْجَازِ الْکَلاَمِ مَعَ إِیْصَالِ الْفَائِدَۃِ بِالْبَیَانِ، لِأَنَّھُمْ سَأَلُوا عَنِ الْأَشْرِبَۃِ، وَھِيَ کَثِیْرَۃٌ، فَلَوْ ذَکَرَھَا لَاحْتَاجَ إِلٰی تَعْدَادِھَا کُلِّھَا، وَوَصْفِھَا، وَلٰکِنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَضْربَ عَنْ ذٰلِکَ، وَأَجَابَ عَنِ الْأَوَانِيِ الْمَذْکُوْرَۃِ، لاَ غَیْرَ، فَکَاَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلاَمُ یَقُولُ:’’أَلأَشْرِبَۃُ کُلُّھَا حَلاَلٌ إِلاَّ مَا نُبِذَ فِيْ ھٰذِہِ الْأَوَانِيِّ، فَکَانَ ھٰذَا
Flag Counter