Maktaba Wahhabi

182 - 250
کیا فہمِ قرآن کے لیے فلسفہ و علم الکلام جاننا ضروری ہے یا نہیں؟ اس پر فریقین کی آراء ذکر کرنے کے بعد امام شاطبی رحمہ اللہ تبصرہ فرماتے ہیں: ’’وشاهد ما بين الخصمين شأن السلف الصالح في تلك العلوم هل كانوا آخذين بها أم كانوا تاركين لها أو غافلين عنها ؟ مع القطع بتحققهم بفهم القرآن يشهد لهم بذلك النبي يَةِ والجم الغفير، فلينظر امرؤ أين يضع قدمه‘‘ [1] ’’(فلسفہ و علم الکلام کے ضرورت و عدم ضرورت پر) فریقین کے درمیان ان علوم کے حوالے سے سلف صالحین کی صورتحال فیصلہ کن ہے۔ کیا سلف نے ان علوم کو حاصل کیا تھا یا انہیں چھوڑا ہوا تھا یا ان سے بے خبر تھے؟ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کا جم غفیر گواہ ہے کہ وہ سب یقینی طور پر صحیح معنی میں قرآن مجید کو سمجھتے تھے، ہر انسان کو غور کرنا ہو گا کہ وہ اپنا پاؤں کہاں رکھ رہا ہے؟ اس لیے تفسیرِ قرآن کرتے ہوئے یہ بات ہر وقت ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ قرآن اولین طور پر ان لوگوں سے مخاطب ہوا، یہ حقیقت نصِ قرآن سے ثابت ہے۔ ﴿ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ﴾ (الجمعۃ:2) ’’وہی ہے جس نے اُمی لوگوں میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرمایا۔‘‘ ارشاد نبوی ہے: ((إنِّي بعثتُ إلى أمَّةٍ أمِّيِّينَ)) [2] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إنَّا أمَّة أمِّيَّة لا نكتب ولا نحسب الشهر هكذا وهكذا)) [3] ’’ہم اُمی امت ہیں، ہم لوگ حساب کتاب نہیں جانتے، مہینہ اس طرح اور اس طرح شمار ہوتا ہے (یعنی اُنتیس اور تیس)۔‘‘ اس اصول کو قواعد تفسیر میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
Flag Counter