Maktaba Wahhabi

150 - 380
ہمراہ ہوتیں۔ جب وہ ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم سر سے کپڑا کھینچ کر چہرے پر ڈال لیتیں اورجب وہ گزرجاتے تو چہرے کھول لیتیں۔‘‘ ایسے ہی صحیح بخاری میں تعلیقاً و مختصراً اور سنن بیہقی میں موصولاً و مطوّلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فتویٰ مذکور ہے۔ اس سے بھی جہاں پردے کے اہتمام کا پتہ چلتا ہے وہیں نقاب وبرقع کی اصل حقیقت کا بھی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ پردے میں مانع نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتی ہیں: (( اَلمُحْرِمَۃُ تَلْبَسُ مِنَ الثِّیَابِ مَا شَآئَ تْ اِلَّا ثَوْباً مَسَّہٗ وَرَسٌ أَوْ زَعْفَرَانُ، وَلَا تُبَرقِعْ وَتُلَثِّمْ، وتُسْدِلُ الثَّوْبَ عَلَیٰ وَجْھِھَا، اِنْ شَآئَ تْ )) [1] ’’احرام والی عورت جو کپڑا چاہے پہنے سوائے ورس اور زعفران والے (خوشبودار) کپڑوں کے، اور برقع وڈھاٹا نہ باندھے اوروہ چاہے تواپنے چہرے پر کوئی کپڑا لٹکالے۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احرام والی عورت چہرے پرکپڑے کو نہ باندھے بلکہ صرف سر کی طرف سے لٹکا دے۔ پھر صحیح قول کی رو سے بیشک وہ کپڑا اس کے چہرے کو چُھوتا رہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (بحوالہ مناسک الحج والعمرۃ، ص: ۱۲، و مجموع فتاوی ابن تیمیۃ: ۲۶/ ۱۱۲) یاد رہے کہ مذکورہ حدیثِ اول میں ام المومنین رضی اللہ عنہا نے جو فرمایا ہے کہ جب دوسرے لوگ ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم سرکاکپڑا گراکر پردہ کر لیتیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک تولوگوں کی کثرت کے نہ ہونے کی وجہ سے اس بات کی گنجائش تھی کہ جب دوسرے لوگ نہ ہوں تو چہرے ننگے کر لیے جائیں مگر آج
Flag Counter