Maktaba Wahhabi

251 - 380
مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کابھی یہی فتویٰ ہے جس کی سند کوحافظ ابن حجر نے صحیح قرار دیا ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی صحیح سند سے یہی مروی ہے اور خود امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔(دیکھیں: فتح الباري: ۳/ ۵۰۳۔ ۵۰۵) لیکن سعی بھی چونکہ ایک عبادت ہے اور اس میں ذکرِ الٰہی اور دعائیں کی جاتی ہیں لہٰذا اگرکوئی ایسی مجبوری نہ ہو تو باوضو ہو کر سعی کرنا ہی مستحب ہے۔ (المغني: ۳/ ۴۰۷) پیدل اور سوار ہوکر سعی کرنا: طواف کی طرح ہی افضل تو یہی ہے کہ سعی بھی پیدل چل کر کی جائے لیکن بیماروں، ضعیف العمر بوڑھوں، کمزوروں اوربچوں کو اٹھاکر یاسواری پر بٹھاکر بھی سعی کروائی جاسکتی ہے کیونکہ صحیح مسلم، سنن ابو داود، نسائی، بیہقی اور مسند احمد میں مذکور حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ر ہوکر طواف وسعی کرنے کا سبب (( لِیَرَاہُ النَّاسُ وَلِیَسْأَلُوْہُ )) [1] ذکر ہوا ہے۔ جس کی قدرے تفصیل ’’پیدل وسوار طواف ‘‘کے عنوان سے حافظ ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری شرح صحیح بخاری (۳/ ۴۹۰) کے حوالے سے گزر چکی ہے۔ غرض صحیح بخاری ومسلم، سنن ابو داود ونسائی اور بیہقی کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کسی تکلیف کی وجہ سے سوارہوکر بیت اللہ کا طواف کرنے کی اجازت بخشی تھی۔[2] اسی پر قیاس کرتے ہوئے صفا ومروہ کے مابین سعی بھی سوار ہوکر کی جاسکتی ہے جبکہ صحیح مسلم، سنن ابو داود و بیہقی اور مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ایک حدیث ہے جس میں کسی معقول عذر کی بنا پر سوار ہوکر سعی کرنے کے جواز کی دلیل موجود ہے۔[3]
Flag Counter