Maktaba Wahhabi

335 - 380
تو ٹھیک ورنہ نہیں) اِسی طرح انھوں نے حضرت عمر اور ان کے فرزند عبداللہ رضی اللہ عنہما کا قول بھی نقل کیا ہے؛ جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’جسے منیٰ میں ہی شام ہوجائے وہ صبح (تیسرے دن) تک رک جائے اور (رمی کرکے ہی) لوگوں کے ساتھ منیٰ سے روانہ ہو۔‘‘ جبکہ مؤطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے الفاظ یہ ہیں: (( لَا یَنْفِرَنَّ حَتَّـٰی یَرْمِي الْجِمَارَ مِنَ الْغَدِ )) [1] ’’اگلے دن (۱۳/ ذوالحج) کی رمی ٔ جمار کیے بغیر واپس نہ لوٹے۔‘‘ یہی اثر موطأ امام محمد (ص: ۲۳۳ مع التعلیق الممجد) میں بھی مروی ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہم بھی اِسے ہی اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور عام فقہاء کا قول ہے۔ (بحوالہ مناسک الحج والعمرہ، ص: ۴۰، نیز دیکھیے: المغنی: ۳/ ۴۰۷) وجوبِ قیامِ منیٰ: ام المومنین صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی مذکورہ سابقہ حدیث کی شرح میں امام شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: 1۔اس حدیث کے الفاظ: (( فَمَکَثَ بِھَا لَیَالِيَ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ )) سے جمہور علماء امت نے یہ دلیل لی ہے کہ منیٰ میں ان دنوں قیام کرنا واجب ہے اور یہ جملہ مناسکِ حج میں سے ایک ہے۔ 2۔جمہور کی دوسری دلیل حضرت عاصم بن عدوی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے جسے اصحابِ سنن، ابنِ حبان، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے؛ جس میں وہ فرماتے ہیں: (( اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم رَخَّصَ لِلرُّعَآئِ اَنْ یَّتْرُکُوا الْمَبِیْتَ بِمِنَیٰ )) [2]
Flag Counter