Maktaba Wahhabi

336 - 380
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں اور اونٹ چرانے والوں کو منیٰ میں یہ راتیں نہ گزارنے کی رخصت دے دی۔‘‘ رخصت کا مقابل عزیمت ووجوب ہے اور یہ اجازت واِذن ایک خاص علّتِ مذکورہ کی وجہ سے حاصل ہوا اور اگر ایسا کوئی سبب نہ ہوتو ترکِ قیامِ منیٰ کی اجازت بھی نہیں ہے۔ 3۔تیسری دلیل صحیح بخاری ومسلم میں مذکور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث ہے جو کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے؛ جس میں وہ بیان کرتے ہیں: (( اِسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم أنْ یَّبِیْتَ بِمَکَّۃَ لَیَالِيَ مِنَیٰ مِنْ اَجْلِ سِقَایَتِہٖ فَأَذِنَ لَہٗ )) [1] ’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایامِ منیٰ کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت طلب کی جو ان کی ذمہ داری سقایۃ الحاج (حاجیوں کو پانی پلانے) کی وجہ سے تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دے دی۔‘‘ البتہ قیامِ منیٰ کے ترک کرنے پر وجوبِ دَم (فدیہ) پر اختلاف رائے ہے۔ مالکیہ کے نزدیک ہر رات کے بدلے میں ایک دم ہے۔ (یعنی کم از کم دو جانور ذبح کرے) بعض فقہاء نے ہر رات کے بدلے بطورِ کفارہ ایک درہم صدقہ کرنے اور بعض نے ہر رات کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا کہا ہے جبکہ امام شافعی اور ایک روایت میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک تینوں راتوں کے عوض صرف ایک دم ہے لیکن امام احمد رحمہ اللہ سے دوسری اور مشہور روایت میں، ایسے ہی حنفیہ کے نزدیک ترکِ قیامِ منیٰ پر کوئی فدیہ نہیں ہے۔ (نیل الأوطار: ۳/ ۵/ ۸۰)
Flag Counter