Maktaba Wahhabi

187 - 380
’’میں مدینہ کے دونوں حروں کی درمیانی جگہ کو حرم قراردیتا ہوں۔اس کے درخت کاٹنا اوراس کا شکار مارنا حرام کرتا ہوں۔‘‘ صحیح مسلم ہی میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( اِنَّ اِبْرََاھِیْمَ ۔ عليه السلام ۔ حَرَّمَ مَکَّۃَ فَجَعَلَھَا حَرَاماً، وََاِنِّیْ حَرَّمْتُ الْمَدِیْنَۃَ حَرَاماً مَابیَنَْ مَاْزِمَیْھَا اَنْ لَّا یُھْرَاقَ فِیْھَا دَمٌ، وَلَا یُحْمَلَ فِیْھَا سِلَاحٌ لِقِتَالٍ، وَلَا تُخْبَطَ فِیْھَا شَجَرَۃٌ اِلّا لِعَلَفٍ )) [1] ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں نے مدینہ کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی حصہ کو حرم قرار دیا ہے کہ یہاں نہ خون بہایا جائے، نہ لڑائی کے لیے ہتھیار اٹھایا جائے اور نہ ہی درخت کے پتے جھاڑے (کاٹے) جائیں سوائے جانوروں کے چارہ کے لیے۔‘‘ ان احادیث میں سے پہلی حدیث میں عیر اور ثور، دوسری حدیث میں دو لابے (حرّے ) اورتیسری میں دو مازم (مضیقین )کاجوذکر ہے ان سے مراد مدینہ طیبہ کی دونوں جانب کے پہاڑ ہیں جن میں سے جبلِ عیر تومیقاتِ ذوالحلیفہ کے پاس ہے جبکہ ثور مدینہ طیبہ کی شمالی جانب جبلِ اُحد کے پاس ہے۔ مدینہ کے مشرق ومغرب میں واقع سیاہ پتھریلی وادیوں کو حرّے کہاگیا ہے اورہر دو پہاڑوں کے درمیانی راستہ کو مازم یامضیق کہا جاتا ہے، تو گویا حرمِ مدینہ کی حدود، عیر وثور کے مابین ہیں جو کہ تقریباً بارہ میل پر مبنی علاقہ بنتا ہے۔ جس طرح اہلِ مکہ کی ضرورت کے پیش نظر انھیں اِذخر نامی گھاس کاٹنے کی اجازت دی گئی ہے اسی طرح اہلِ مدینہ کی ضرورت کی خاطر چارہ کاٹنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کا شکار مارنا اور درخت کاٹنا گناہ ہے۔
Flag Counter