Maktaba Wahhabi

60 - 380
{وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی} [البقرۃ: ۱۹۷] ’’اور زادِ راہ (سفر خرچ) اپنے ساتھ رکھو، اس لیے کہ اچھا توشہ یہی ہے کہ (بھیک مانگنے سے )بچے رہو۔‘‘ تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کا سببِ نزول بیان کرتے ہوئے ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’کَانَ اَھلُ الْیَمَنِ یَحُجُّوْنَ، وَلَا یَتَزَوَّدُوْنَ، وَیَقُوْلُوْنَ: نَحْنُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ، فَاِذَا قَدِمُوْا مَکَّۃَ، سَأَلُوْا النَّاسَ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی‘‘ (تفسیر ابن کثیر: ۱/ ۲۳۹، طبع حلبی مصر) ’’اہلِ یمن حج کے لیے نکلتے توکوئی زادِ راہ ساتھ نہیں لیتے تھے اوراپنے آپ کو کہتے کہ ہم متوکّل ہیں، لیکن جب مکہ مکرمہ پہنچتے تو لوگوں سے بھیک مانگتے تھے۔ اس پر یہ ارشادِ الٰہی ناز ل ہوا کہ ’’زادِ راہ اپنے ساتھ رکھو اس لیے کہ اچھا توشہ یہی ہے کہ (بھیک مانگنے سے )بچے رہو۔‘‘ نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہی تفسیر ی قول صحیح بخاری شریف، کتاب الحج، باب قول اللہ تعالیٰ: {وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی} اورمتعدد دیگر کتبِ حدیث میں بھی مذکور ہے۔[1] یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ اس آیتِ مذکورہ میں ’’تقویٰ‘‘ سے اس کا معروف اصطلاحی معنی مراد نہیں بلکہ یہاں اس کا لغوی معنی ’’بچنا‘‘ مراد ہے، جیساکہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں وضاحت کی ہے۔ (تفسیر روح المعانی: ۱/ ۲/ ۸۶ طبع بیروت، و اشرف الحواشی از مولانا محمد عبدہٗ الفلاح، ص: ۳۸، حاشیہ نمبر: ۷، ناشر شیخ محمد اشرف ،لاہور )
Flag Counter