Maktaba Wahhabi

73 - 199
’’چنانچہ تم ان عورتوں سے شادی کرو جو تمھیں اچھی لگیں دو دو، تین تین یا چارچار (عورتوں) سے، لیکن اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ تم (ان کے ساتھ) انصاف نہ کر سکو گے تو صرف ایک سے(نکاح کرو)۔‘‘[1] نزولِ قرآن سے پہلے شادیوں کی تعداد محدود نہ تھی اور کئی مرد بیسیوں بیویاں رکھتے تھے۔ اور بعض کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں۔ لیکن اسلام نے بیویوں کی تعداد 4تک محدود رکھی ہے۔ اسلام مرد کو دو، تین یا چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ وہ ان میں انصاف کر سکے۔ اسی سورت، یعنی سورئہ نساء کی 129 ویں آیت کہتی ہے: ﴿وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ﴾ ’’تم عورتوں کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے۔‘‘[2] اس لیے زیادہ شادیاں کرناکوئی قانون نہیں بلکہ استثنا ہے۔ بہت سے لوگ یہ غلط نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھے۔ حلّت و حرمت کے اعتبار سے اسلامی احکام کی پانچ اقسام ہیں: فرض: یہ لازمی ہے اور اس کا نہ کرنا باعث سزا و عذاب ہے۔ مستحب: اس کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔ مباح: یہ جائز ہے، یعنی اس کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔ مکروہ: یہ اچھاکام نہیں، اس پر عمل کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ حرام: اس سے منع کیا گیا ہے، یعنی اس پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کا چھوڑنا باعثِ ثواب ہے۔ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مذکورہ احکام کے درمیانے درجے میں ہے۔ اس کی اجازت
Flag Counter