Maktaba Wahhabi

126 - 393
کے ساتھ بھیج دیا۔ [1] حکومت کی طرف سے بیت المال میں سے اس شخص کی اعانت کی دلیل، جو مفلس لوگوں میں سے شادی کرنا چاہے اور شادی نہ کرنے کی صورت میں اس کے بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو، علماء کا یہ قول ہے کہ مکمل کفایت یہ ہے کہ مفلس انسان اتنا مال لے لے، جس کے ساتھ وہ شادی کرسکے، جب کہ اس کے پاس بیوی نہ ہو یا اسے نکاح کی ضرورت محسوس ہو۔ [2] امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عمل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ امام ابو عُبید قاسم بن سلام نے عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میری شادی کی، تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے مال سے ایک مہینہ مجھ پر خرچ کیا، پھر انھوں نے فرمایا:اے پرفا! اب انھیں خرچ نہ دو، پھر انھوں نے مجھے بلایا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بعد فرمایا:اما بعد! میری رائے میں یہ مال میرے لیے حلال نہیں الا یہ کہ اسے لینے کا حق ہو اور جب سے میں خلیفہ بنا ہوں میں اسے اپنے لیے حرام بھی نہیں سمجھتا، میرے پاس میری امانت واپس آگئی ہے، میں نے ایک مہینہ تک اللہ تعالیٰ کے مال میں سے تم پر خرچ کیا لیکن اب اس سے زیادہ تمھیں نہیں دوں گا۔ [3] امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، جو شدتِ احتیاط میں بہت مشہور و معروف ہیں، اگر بے زوج لوگوں کی شادی کے لیے اسلامی حکومت کی ذمہ داری پر آپ کا ایمان نہ ہوتا، تو وہ بیت المال میں سے اپنے بیٹے پر خرچ نہ کرتے۔ اسی طرح خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ بھی اپنے عہد میں بے زوج لوگوں کی شادی کرانے کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ امام ابوعبید قاسم بن
Flag Counter