Maktaba Wahhabi

293 - 393
۶۔ ثانیاً:فریضۂ زکوٰۃ: ہم نے قبل ازیں یہ ذکر کیا ہے کہ فقیر شخص کے قرابت داروں پر واجب ہے کہ وہ اس پر خرچ کریں لیکن اگر کسی فقیر کے قرابت دار ہی نہ ہوں یا قرابت دار تو ہوں مگر وہ مالی طور پر عاجز ہونے کی وجہ سے اس پر خرچ کرنے کی قدرت نہ رکھتے ہوں، تو کیا اس طرح کے حالات میں فقیر کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے گا؟ اس طرح کے حالات میں بھی اسلامی شریعت فقیر سے غافل نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے دولت مندوں کے اموال میں ایک حق معلوم مقرر فرمادیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَالَّذِیْنَ فِیْٓ أَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْم [1] (اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے،(یعنی)مانگنے والے کا اور نہ مانگنے والے کا۔) اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے فرمایا ہے: خُذْ مِنْ أَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلوٰتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ۔ [2] (ان کے مال میں زکوٰۃ قبول کرلو کہ اس سے تم ان کو(ظاہر میں بھی)پاک اور(باطن میں بھی)پاکیزہ کرتے ہو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعاء ان کے لیے موجب تسکین ہے۔) اللہ تعالیٰ نے اموالِ زکوٰۃ میں فقراء و مساکین کے حق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ
Flag Counter