Maktaba Wahhabi

292 - 393
تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلاَّ وُسْعَھَا لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ۔[1] (اور مائیں اپنے بچے کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ(حکم)اس شخص کے لیے ہے، جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی(تو یاد رکھو)نہ تو ماں کو اُس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح(نان و نفقہ)بچے کے وارث کے ذمے ہے۔) اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے وارث کے لیے بھی وہی مراجب قرار دیا ہے، جو بچے کے باپ کے لیے واجب قرار دیا ہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی اسی فرمان باری تعالیٰ کے مطابق فیصلہ فرمایا تھا۔ امام سفیان بن عیینہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بچے کے قرابت داروں کو بند کردیا تھا کہ عورتیں تو نہیں البتہ ان کے مرد اس بچے پر خرچ کریں۔ ابن ابی شیبہ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ ایک یتیم کا ولی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے فرمایا کہ اس پر خرچ کرو اور پھر فرمایا کہ اگر مجھے اس بچے کے کوئی بہت دور ہی کے قرابت دار ملتے تو میں ان پر بھی اس کے نفقہ کو واجب قرار دے دیتا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح فیصلہ فرمایا تھا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اس مسئلہ میں کوئی عمر اور زید رضی اللہ عنہما کا مخالف نہیں ہے۔ [2]
Flag Counter