Maktaba Wahhabi

291 - 393
اگر قرابت داروں پر خرچ کرنے کے بعد بھی کچھ باقی بچ جائے، تو یہاں اور وہاں(ہر جگہ)خرچ کردو۔ [1] امام مسلم رحمہ اللہ ہی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا:میرے حسن صحبت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا:تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ اور پھر وہ جو تمہارا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہے۔ [2] امام ابن قیم رحمہ اللہ قرابت داروں کی ذمہ داری سے متعلق احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ تمام احادیث، ارشادِ باری تعالیٰ:وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی۔ اور ارشادِ باری تعالیٰ:وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ کی تفسیر میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قریبی رشتہ داروں کا حق والدین کے حق کے ساتھ رکھا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انھیں برابر برابر قرار دیا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ قرابت داروں کا قرابت داروں پر حق ہے اور آپ نے اس حق کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر اس سے مراد خرچ کرنے کا حق نہیں ہے، تو پھر نہیں معلوم کہ اس سے اور کون سا حق مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں سے حسن سلوک کا بھی حکم دیا ہے۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ وہ اسے بھوک ننگ سے مرتے ہوئے دیکھے اور وہ اس کی ضرورت اور سترپوشی کے پورا کرنے پر قادر بھی ہو لیکن اسے ایک لقمہ نہ کھلائے اور نہ اس کے ستر کو چھپائے، الا یہ کہ اسے قرض دے، جو اس کے ذمہ واجب الادا رہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ بالا حکم کتاب اللہ کے عین مطابق ہے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ لَا
Flag Counter