Maktaba Wahhabi

135 - 393
موجود ہے، اس صورت میں سارا سارا مال و متاع عورت ہی کے لیے ہوگا، اسے ابوحفص نے ذکر کیا ہے …(۲)جیسا کہ ابن قدامہ نے نقل کیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے سارے مال کو نہ لینے والا ہو اور اگر وہ اس کے سارے مال کو لینا چاہے، تو شرط صحیح نہیں ہوگی، سارا مال بیٹی ہی کے لیے ہوگا، جیسا کہ تمام اولیاء بھی اس کی شرط لگائیں(تو پھر بھی سارا مال بیٹی ہی کا ہوگا)اسے قاضی نے المجرد میں ذکر کیا ہے۔ [1] مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سعودی عرب کے مفتی اعظم سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ l کی بات بھی بیان کردی جائے، وہ فرماتے ہیں کہ ’’ ہمارے زمانہ میں مہروں میں بے پناہ اضافہ کا مسئلہ ان مشکلات میں سے ہے، جن کے حل کی طرف توجہ مبذول کرنا واجب ہے کیونکہ ہمارے اس زمانے میں مہروں میں بے پناہ اضافہ کی وجہ سے بہت سے نقصانات ظاہر ہورہے ہیں، جن میں سے چند حسب ذیل بطورِ خاص قابل ذکر ہیں: ۱۔ شادی میں کمی، جس کی وجہ سے غیر شادی شدہ جوڑوں کی کثرت ہورہی ہے اور فتنہ و فساد پھیل رہا ہے۔ ۲۔ اسراف و تبذیر، جو شرعاً ممنوع ہیں۔ ۳۔ ولی کا اپنی ولیہ کو اس صالح کفو سے شادی سے روک کر دھوکا دینا، جس کے بارے میں اسے یہ گمان ہو کہ وہ زیادہ مہر ادا نہیں کرسکے گا اور وہ کسی ایسے شخص کی اُمید رکھے، جو اس سے زیادہ مہر ادا کرسکتا ہو، خواہ وہ دین اور اخلاق کے اعتبار سے ناپسندیدہ ہو، عورت کے لیے بھی اس کے ہاں خوشگوار زندگی کی اُمید نہ ہو، یہ دھوکا ہونے کے ساتھ ساتھ نکاح سے روکنا بھی ہے اور اگر کوئی شخص اس کا بار بار ارتکاب کرے، تو اسے فاسق، ناقص الدین اور ساقط العدالہ قرار دیا
Flag Counter