تصور بھی ہے کہ بیٹی کے لیے گھریلو سازو سامان کی تیاری اور دولہا اور اس کے خاندان کے لیے تحائف پیش کرنا بیٹی کے خاندان کی ذمہ داری ہے۔ دولہا کی بھی یہی رائے ہوتی ہے کہ شادی کے وقت دلہن کا خاندان سارا گھریلو سامان فراہم کرے نیز وہ اس کے لیے، اس کے والدین کے لیے، اس کے دادا دادی کے لیے، نانا نانی کے لیے، بہنوں اور بھائیوں کے لیے، چچاؤں اور پھوپھیوں کے لیے اور ماموؤں اور خالاؤں کے لیے تحائف دے۔ دلہن کے خاندان کی طرف سے اس سلسلہ میں معمولی کوتاہی بھی ناقابل معافی گناہ سمجھا جاتا ہے اور اسے اس بات پر معمول کیا جاتا ہے کہ گھر والوں کو اپنی بیٹی سے محبت نہیں ہے اور وہ بہت کنجوس ہیں۔ شادی کرنے والے ہر اس خاندان سے منہ موڑلیتے ہیں، جس سے خاندان کے افلاس کی وجہ سے مطالبات کے پورا ہونے کی توقی نہ ہو یا وہ اس سلسلہ میں راہ اعتدال پر چلنے والے ہوں۔ اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ لڑکی کی والدہ اس کی ولادت کے دن ہی سے اس کے لیے اس سامان کی تیاری شروع کردیتی ہے۔ جو وہ شادی کے وقت اپنی بیٹی کو دے گی اور اگر کسی مسکین آدمی کی تین یا چار بیٹیاں ہوں، تو پھر کچھ بعید نہیں کہ وہ آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ اپنی بیٹیوں کے لیے جہیز کی تیاری پر خرچ کردے۔
اس بری سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ کتنی ہی لڑکیاں اس انتظار میں ہیں کہ اُن کا رشتۂ طلب کرنے کے لیے کوئی ان کے خاندان کے پاس آئے(مگر کوئی نہیں آتا)اور ان میں اس کے سوا اور کوئی نقص نہیں کہ ان کے خاندان مفلس ہیں، ان کے لیے دولہا کے مطالبات کو پورا کرنا ممکن ہیں۔ [1]
|