Maktaba Wahhabi

182 - 393
شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے۔ [1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ باب کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے لیے مذکورہ صورت میں روزہ رکھنا حرام ہے اور جمہور کا بھی یہی قول ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ اس حرمت کا سبب یہ ہے کہ شوہر کو ہر وقت بیوی سے فائدہ اُٹھانے کا حق حاصل ہے اور اس کے حق کو فوری طور پر ادا کرنا واجب ہے، لہٰذا اس کے حق کو نہ تو نفل عبادت کے ساتھ ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ایسے واجب کے ساتھ جسے تاخیر سے ادا کرنا بھی جائز ہو … ہاں اگر شوہر مسافر ہو تو پھر نفل عبادت جائز ہے کیونکہ شوہر کی موجودگی کی قید اس صورت میں جواز کا تقاضا کرتی ہے، اگر بیوی نے نفل روزہ رکھا ہو اور روزے کے دوران اس کا شوہر گھر واپس آجائے، تو بغیر کسی کراہت کے اس کے شوہر کو روزہ ختم کرادینے کا حق حاصل ہے۔ [2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا، جس کی بیوی دن کو روزہ رکھتی اور رات کو قیام کرتی ہے، اس کا شوہر جب بھی اسے اپنے بستر کی طرف بلاتا ہے، تو وہ انکار کردیتی ہے، وہ رات کی نماز اور دن کے روزے کو شوہر کی اطاعت پر مقدم قرار دیتی ہے، تو کیا اس کے لیے یہ جائز ہے؟ آپ نے فرمایا اس کے لیے یہ حلال نہیں اور اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ عورت کے لیے واجب ہے کہ اس کا شوہر اسے جب بھی ہم بستری کے لیے طلب کرے، وہ اس کی بات مانے کیونکہ یہ اس کے لیے فرض ہے، جب کہ رات کا قیام اور دن کا روزہ نفل ہے، لہٰذا ایک مومن عورت کو نفل کو فرض پر کس طرح مقدم قرار دے سکتی ہے؟ [3]
Flag Counter