Maktaba Wahhabi

259 - 393
خلاف زنا کو ثابت کردے اور جن ممالک میں یہ حکم نافذ ہے، ان میں اسی طرح ہورہا ہے، ویل ڈیورنٹ نے کہا ہے۔ طرفین کی رضامندی کے ساتھ میاں بیوی کو طلاق کا حق حاصل ہونا چاہیے، اگر دونوں کے محض مطالبہ طلاق کے اتفاق کی صورت میں ہم طلاق کو ردّ کردیں، تو ہم ان دونوں کو ایک ایسی ناشائستہ صورت اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جو ہمارے غیر معقول مطالبات سے ہم آہنگ ہو۔ ایک مغربی ملک کا واقعہ ہے کہ پارلیمنٹ کا ایک ممبر اور اس کی بیوی طلاق پر متفق ہوگئے مگر ان کے مطالبہ کو اس لیے ردّ کردیا گیا کہ انھوں نے احکام ربانی اور قوانین انسانی کی اتنی خلاف ورزی نہیں کی، جو طلاق کے لیے کافی ہو لہٰذا محکم نے ان کی علیحدگی کی خواہش کو مسترد کردیا اور اس طرح دونوں کو ساری زندگی کے لیے گویا زنجیروں میں جکڑ دیا گیا، اس طرح کے حالات میں انسان مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ اس طرح کے فرسودہ اور ظالمانہ قانون کے خلاف حیلہ سازی سے کام لے۔ [1] برٹرینڈرسل(Bertround Russel)نے کہا ہے کہ وہ ممالک جن میں قانون نے طلاق کو بالاتفاق حرام قرار دیا ہے مثلاً انگلینڈ، ان میں فریقین زنا ثابت کرنے کے لیے جھوٹے گواہ پیش کردیتے ہیں یا ایک دوسرے کے خلاف تشدد کا رویہ اختیار کرتے ہیں تاکہ یہ واقعات عدالت کی طرف سے جبری طلاق کی بنیاد بن سکیں۔ [2] نصرانیت کے طلاق سے متعلق مؤقف کے انسانی ضرورتوں کے مطابق نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عیسائی دنیا نے طلاق کے جواز کی طرف آنا شروع کردیا ہے۔ اطلاوی پارلیمنٹ نے … جو روم کے بابوی مستقر سے چند قدموں کی مسافت
Flag Counter