Maktaba Wahhabi

261 - 393
وہ حالت حیض میں ہو اور نہ ایسے طہر میں جس میں اس نے اس سے جماع کیا ہو، وغیر ذلک، پھر اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ میاں بیوی میں تین طلاقوں کے بعد تفریق ہوگی، مرد چاہے تو وہ طلاق سے رجوع کرکے تفریق کے دروازے کو بند کرسکتا ہے، خواہ اس نے دو طلاقیں دے دی ہوں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ م بِإِحْسَانٍ۔[1] دوسری طرف اسلام نے طلاق کو اس طرح حرام قرار نہیں دیا، جس طرح نصرانیت نے اسے حرام قرار دیا ہے، تاکہ میاں بیوی شادی کے دائرہ سے باہر غیر شرعی تعلقات قائم کرکے حرام کا ارتکاب نہ کریں بلکہ اختلاف کے وقت طلاق کو جائز قرار دیا ہے تاکہ ہر ایک اپنی پسند کے جوڑے کو حاصل کرے۔ امام کاسانی لکھتے ہیں ’’ طلاق دراصل مصلحت کی وجہ سے جائز قرار دی گئی ہے کیونکہ بسااوقات زوجین کے اخلاق مختلف ہوسکتے ہیں اور اخلاق کے مختلف ہونے کی صورت میں نکاح کا باقی رہنا قرین مصلحت نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں یہ مقاصد کے لیے وسیلہ نہیں بن سکتا لہٰذا مصلحت طلاق کی صورت میں تبدیل ہوجاتی ہے، تاکہ ان میں سے ہر ایک اپنے مزاج کے مطابق جوڑا اختیار کرلے، جس سے نکاح کے مصالح اور مقاصد پورے ہوں۔ [2]
Flag Counter