Maktaba Wahhabi

273 - 393
سے آشنا تھیں۔ ‘‘[1] عقاد نے بھی لکھا ہے کہ ہم ایک وہم کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، جو جاہلوں اور جلد باز دانشوروں میں پھیلا ہوا ہے اور وہ یہ کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے، جس نے تعدادِ ازواج کو جائز قرار دیا ہے یا یہ وہ پہلا دین ہے، جس نے موسویت و مسیحیت کے بعد اسے جائز قرار دیا ہے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے جیسا کہ قدیم شریعتوں میں احکام نکاح کی طرف ادنیٰ مراجعت ہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے، اہل کتاب کی شریعتوں میں اور تورات و انجیل سے قبل کی قدیم شریعت میں اس بات پر کوئی پابندی نہیں، تورات یا انجیل میں بھی تعدد ازواج پر کوئی پابندی نہیں بلکہ عہد ابراہیم خلیل علیہ السلام سے لے کر عہد میلاد تک یہ انبیاء کرام سے بھی ثابت ہے۔ انجیل میں ایک بھی ایسی نص نہیں، جس نے اسے حرام قرار دیا ہو، جو عہد قدیم میں آباؤ انبیاء کے لیے اور ان سے کم مرتبہ خواص و عوام کے لیے جائز قرار دیا گیا تھا۔ انجیل سے تو یہ ثابت ہے کہ یہ تمام حالات میں جائز ہے، استثناء کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ پادری جب رہبانیت کی طاقت نہ رکھے، تو وہ صرف ایک بیوی پر قناعت کرے … اسلام نے مرد کے لیے تعدد ازواج کو جائز قرار دے کر کسی بدعت کا آغاز نہیں کیا بلکہ جدید بات یہ ہے کہ ہر قید سے آزاد اسی جواز نے جو انارکی پھیلا رکھی تھی، اسلام نے اس کی اصلاح کی ہے۔ دوسری بات جس کی طرف ہم توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، یہ ہے کہ عورت کو مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ تعدد ازواج کو ضرور قبول کرلے، اس بارے میں ڈاکٹر عمارہ نجیب لکھتے ہیں کہ ’’ معاملہ نئی عورت کے سپرد ہے، کوئی بھی کسی عورت کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ
Flag Counter