قاضی ابوالسعود علانیہ سزا کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اقامت حد کے وقت مومنوں کی ایک جماعت کی موجودگی سزا میں اضافے کا موجب ہوگی تاکہ مجرم کو بدنی اور معنوی سزا دی جائے اور پھر بعض لوگ جسمانی سزا کی نسبت معنوی سزا سے زیادہ نصیحت حاصل کرتے ہیں کیونکہ رسوائی سزا سے زیادہ بڑی سزا ہوتی ہے۔ [1]
اسلامی شریعت نے سزا مقرر کرکے بیمار نفسوں کو جرم کے ارتکاب سے روکا ہے اور ارتطاب جرم کی جرأت کی وجہ سے متوقع شر کو دور کیا ہے اور سزا کی علانیہ تنفیذ کے ساتھ اسے مشہور کیا ہے۔ گناہوں کے ذکر کے بعد، جو اس کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے، اس کے پھیلنے سے صرف اسی صورت میں روکا جاسکتا ہے کہ اس کے ساتھ اس کی سزا کو بھی بیان کردیا جائے۔
اقامت حدود اور ان کے علانیہ نفاذ کا فائدہ اس وقت واضح ہوجاتا ہے، جب ہم سعودی عب … جس میں حدود قائم کی جاتی ہیں … کا ان ممالک سے مقابلہ کرتے ہیں، جن میں حدود قائم نہیں کی جاتیں، بطورِ مثال سعودی عرب میں ۱۳۹۷ ھ(۱۹۷۷ء)میں قتل، چوری و رہزنی، اخلاقی جرائم اور اس قسم کے دیگر جرائم میں سے صرف ایک جرم کا ارتکاب ہوا، جب کہ اسی مدت میں امریکہ میں ۷۷۷، ۹۳۵،۱۰ جرائم کا ارتکاب ہوا، اسی طرح سعودی عرب میں ہر ایک لاکھ میں سے ۲۲ افراد نے جرم کا ارتکاب کیا، جب کہ امریکہ میں اسی مدت میں جرائم کی شرح ایک لاکھ میں سے ۵۵۵۱ تھی۔ [2]
|