Maktaba Wahhabi

36 - 393
لکھا ہے کہ ’’ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حکم شریعت سننے سے پہلے بھی زنا عقلی طور پر ایک بہت برا فعل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ’’ فاحشہ ‘‘(بے حیائی)رکھا ہے اور آیت کے نزول سے پہلے یا بعد کی حالت کی کوئی تخصیص نہیں کی۔ ‘‘ [1] امام ابن قیم رحمہ اللہ آیت کریمہ:قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ …(کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ حرام کیا ہے)کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ بے حیائی کے کام فی نفسہٖ ایسے ہیں کہ عقلیں انھیں مستحسن نہیں گردانتیں لہٰذا برائی و بے حیائی کی وجہ سے انھیں حرام قرار دیا گیا ہے، پھر امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ بھی اسی قبیل میں سے ہے کہ:وَلَا تَقْرَبُوْا الزِّنٓیٰ إِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّسَآئَ سَبِیْلًا۔ [2](اور زنا کے بھی پاس نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے) شیخ عبدالرحمن بن ناصر سعدی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کا ذکر کرتے ہوئے اسے بہت برا کام بتایا اور فرمایا ہے کہ کَانَ فَاحِشَۃً(یہ بے حیائی ہے)یعنی اسے شرعی، عقلی اور فطری طور پر بہت برا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کی بے حرمتی ہے، عورت کی حق تلفی بھی ہے، اس کے گھر والوں کے حق کی پائمالی بھی ہے، بستر کو خراب کرنا بھی ہے، انساب میں اختلاط بھی ہے اور اس کے علاوہ اور بھی کئی مفاسد ہیں۔ [3] اس بات کی دلیل کہ زنا عقل سلیم کے نزدیک بھی بہت بری بات ہے، یہ ہے کہ سلیم طبائع اس کی ممانعت کے حکم سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ہرحال میں اس سے
Flag Counter