Maktaba Wahhabi

380 - 393
وہ اختلاط نہیں کرتی تھیں، ان کے ساتھ گھل مل کر طواف نہیں کیا کرتی تھیں۔ [1] جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا اہتمام فرمایا کرتے تھے کہ گھروں میں واپس ہوتے ہوئے عورتیں مردوں کے ساتھ اختلاط نہ کریں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عورتیں فرض نماز سے جب سلام پھیرتیں تو اُٹھ کھڑی ہوتیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والے مرد … جب تک اللہ چاہتا … اپنی جگہ بیٹھے رہتے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو مرد بھی کھڑے ہوجاتے تھے۔ [2] امام زہری کہتے ہیں کہ ہماری رائے میں یہ اس لیے تاکہ واپس جانے والی عورتیں دور ہوجائیں۔ واللہ أعلم۔ امام ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ جب امام کے ساتھ مرد اور عورتیں ہوں، تو مستحب یہ ہے کہ وہ اور مرد اس قدر بیٹھے رہیں کہ وہ سمجھیں کہ سلام پھیرنے کے بعد عورتیں اُٹھ کر واپس چلی گئی ہیں، پھر امام ابن قدامہ مذکورہ بالا حدیث سے استشہاد کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک کی طرف سے اس بارے میں کوتاہی کا نتیجہ مردوں کے عورتوں کے ساتھ اختلاط کی صورت میں برآمد ہوگا۔ [3] ان تمام امور سے یہ بات واضح ہے کہ اسلامی شریعت بیضاء کی خواہش کہ اختلاط کی صورت پیدا نہ ہو۔ اس موضوع کے اختتام سے قبل ہم چاہتے ہیں کہ یہ بھی بیان کردیں کہ عورتوں کے مردوں کے ساتھ اختلاط کی ممانعت کے بارے میں اسلامی تعلیمات اختیاری نہیں ہیں کہ عورتیں جب چاہیں ان کے مطابق عمل کرلیں اور جب چاہیں عمل نہ کریں بلکہ حکمران کا فرض ہے کہ وہ عورتوں کو اختلاط سے منع کرے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ حکمران کے لیے واجب ہے کہ وہ بازاروں، فحاشی کے
Flag Counter