Maktaba Wahhabi

338 - 413
یا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔‘‘ اللہ اکبر! رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر شفیق و مہربان تھے! ایک شخص نماز میں گفتگو کرتا ہے، بلکہ خاموش کروانے والوں کو برا بھلا کہتا ہے اور یہ سب کچھ سننے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نہ ڈانٹ ڈپٹ، نہ سب و شتم، اور نہ ہی مار پیٹ، بلکہ کمال نرمی، غایت درجہ مہربانی اور بے مثال لطف و عنایت سے آداب نماز کی تعلیم۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کیا ہے: ’’ فِیْہِ بَیَانُ مَا کَانَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم مِنْ عَظِیْمِ الْخُلُقِ الَّذِيْ شَھِدَ اللّٰہُ تَعَالیٰ لَہٗ بِہٖ، وَرِفْقُہ بِالْجَاھِلِ، وَرَأْفَتُہٗ، وَشَفقتُہ عَلَیْہ۔ وَفِیْہِ التَّخَلُّقُ بِخُلُقِہٖ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِي الرِّفْقِ بِالْجَاھِلِ،وحُسْنِ تَعْلیْمِہٖ، وَاللُّطْفِ بِہٖ، وَتَقْرِیْبِ الصَّوَابِ إِلیٰ فَھْمِہٖ۔‘‘[1] ’’اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم، جس کی گواہی اللہ تعالیٰ نے دی، اور آپ کی جاہل کے ساتھ شفقت، نرمی اور مہربانی کا بیان ہے۔ا ور اس میں یہ [بھی ]ہے کہ جاہل کے ساتھ نرمی میں، اس کو اچھے طریقے سے تعلیم دینے میں، اس کے ساتھ مہربانی کرنے میں اور ٹھیک بات اس کے ذہن نشین کرنے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ شفقت و نرمی والی اس تعلیم کا کیا اثر ہوا ؟ خود معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ ہی نے بیان کیاکہ: ’’ قُلْت:’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! إِ نِّيْ حَدِیْثُ عَھْدٍ بِجَاھِلِیَّۃٍ، وَقَدْ جَائَ اللّٰہُ بِالْإِسْلَامِ، وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا یَأْتُوْنَ الْکُھَّانَ‘‘۔
Flag Counter