[بَابُ الرِّفْقِ فِي الْاَمْرِ کُلِّہٖ][1]
[ہر کام میں نرمی کے متعلق باب ]
ایک دوسرے مقام پر عنوان درج ذیل الفاظ کے ساتھ لکھا ہے:
[بَابُ قَوْلِ النِّبَيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، وَکَانَ یُحِبُّ التَّخْفِیْفَ وَالتَّسَرِّي عَلَی النَّاسِ] [2]
[نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:’’آسانی کرو، اور سختی نہ کرو۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں کے ساتھ تخفیف اور آسانی کو پسند کرنے کے متعلق باب]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے:
’’ فِیہِ الرِّفْقُ بِالْجَاھِلِ و تَعْلِیْمُہٗ مَا یَلْزَمُہٗ مِنْ غَیْرِ تَغْنِیْفٍ، إِذَا لَمْ یَکُنْ ذٰلک مِنْہُ عِنَاداً، وَلَا سِیِّمَا إِنْ کَانَ مِمَّنْ یُحْتَاجُ إلَیٰ اِسْتِئُلَافِہٖ، وَفِیْہِ رَأْفَۃُ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَحُسْنُ خُلْقِہٖ۔‘‘[3]
’’اس سے جاہل کے ساتھ نرمی کے ساتھ برتاؤ کرنا اور اس کو ضروری باتوں کی تعلیم سختی کے بغیر دینا [ثابت ہوتا]ہے، جب کہ وہ ضدی اور ہٹ دھرم نہ ہو اور خاص طور پر اس وقت جب کہ وہ تالیف قلب کا محتاج ہو۔ [علاوہ ازیں ]اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور اعلیٰ اخلاق بھی ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
امام ابن حبان رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس قصہ کو اپنی کتاب [صحیح ابن حبان] میں روایت کیا ہے اور اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
[ذِکْرُ الْبَیَانِ بِأَنَّ قَوْلَ الْمُصْطَفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم [دَعُوہُ] أَرَادَ بِہِ التّرَفُّقَ لِتَعْلِیْمِہٖ مَالَمْ یَعْلَمْ مِنْ دِیْنِ اللّٰہِ وَأحْکَامِہٖ][4]
|