Maktaba Wahhabi

393 - 413
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فوائد حدیث بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: إِنَّ الْمُفْتِيَ إِذَا ظَھَرَتْ لَہٗ مِنَ الْمُسْتَفْتِيْ أَمَارَۃُ الصِّدْقِ کَانَ لَہٗ أَنْ یُّسَہِّلَ عَلَیْہِ، حَتَّی لَواسْتَفْتَاہُ اثْنَانِ فِيْ قَضِیَّۃٍ وَاحِدَۃٍ، جَازَ أَنْ یُفْتِيَ کُلاًّ مِنْھُمَا بِمَا یُنَاسِبُ حَالَہٗ۔[1] جب مفتی کے لیے فتویٰ طلب کرنے والے کی سچائی کی علامت ظاہر ہو، تو وہ اس کے لیے آسانی کرسکتا ہے، حتی کہ اگر ایک ہی قسم کے معاملہ کے بارے میں دو اشخاص سوال کریں، تو مفتی ہر ایک کو اس کے مناسب حال فتوی ٰدے سکتا ہے۔ تنبیہ: مذکورہ بالا سات پہلوؤں کے علاوہ بھی متعدد گوشوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طلبہ کے حالات کو پیش نظر رکھنا ثابت ہے۔ راقم السطور نے توفیق الٰہی سے اپنی کتاب[’’من صفات الداعیۃ :مراعاۃ أحوال المخاطبین في ضوء الکتاب والسنۃ و سیر الصالحین ‘‘] میں سیرت طیبہ کے اُنیس گوشوں میں سے اسّی(۸۰) شواہدکے ساتھ اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ تفصیلی معلومات کی خواہش رکھنے والے قارئین کو شاید اس کتاب میں توفیقِ الٰہی سے اپنا مقصود مل جائے۔ ۔۔۔۔۔۔
Flag Counter