یعنی:جو اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِآخرت کا انکارکرے گا وہ پرلے درجے کا گمراہ ہے۔ فرشتے نوری مخلوق ہیں ملائکہ کی خلقت نور سے ہوئی ہے،صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے (خلقت الملائکۃ من نور وخلق الجان من نار وخلق آدم مما وصف لکم)[1] یعنی:فرشتے نور سے،جن آگ سے پیداکئے گئے ہیں اور انسان اس (مادہ) سے جس کا ذکرکردیاگیاہے۔ نوری مخلوق ہونے کی وجہ سے فرشتے کھانے پینے سے مستغنی اور بے نیاز ہیں۔سورۃ الذاریات کے مضمون سے ثابت ہوتا ہے کہ کچھ فرشتے ،ابراہیمعلیہ السلامکے پاس بصورت بشر آئے تھے،ابراہیم علیہ السلام نے انہیں کھانا پیش کیا،جسے فرشتوں نے نہیں کھایا تھا،جب ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ کھانے کیلئے ان کے ہاتھ نہیں بڑھ رہے تو انہوں نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا،جس پر فرشتوں نے اپنی حقیقت سے آگاہ کردیا یعنی ہم فرشتے ہیں۔ (کھانے پینے سے بے نیاز ہیں) سورئہ فاطر کی آیت کے مطابق فرشتے،پروں والی مخلوق ہیں، جبکہ نبیعلیہ السلامکے فرمان کے مطابق، جبریل علیہ السلام کے 600 پر ہیں۔ فرشتوں کی تعداد فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے،جن کا احصاء اورشمار اللہ تعالیٰ کے سواکوئی نہیں جانتا،ان کی کثرت تعداد کااندازہ نبیعلیہ السلامکی اس حدیث سے ہوتا ہے :بیت المعمور( جو ساتویں آسمان پرفرشتوں کی مسجد ہے )میں ہرروز سترہزارفرشتے داخل ہوتے ہیں،جو قیامت تک دوبارہ داخل نہ ہوسکیں گے۔[2] |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |