(۱) کسی چیز یا کام کے رونما ہونے سے ۔چنانچہ جب بھی کوئی چیز رونما ہوگی معلوم ہوجائے گا کہ یہی امرِ مقدور ہے، کیونکہ اگریہ امرِمقدورنہ ہوتی تو ہرگز رونما نہ ہوتی ،کیونکہ جو اللہ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے ، اور جس چیز کا ہونا اللہ تعالیٰ نہ چاہے وہ ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ (۲)دوسری صورت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل میں رونما ہونے والے کسی واقعہ یا امر کی خبر دے دیں۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہورِ دجال،خروجِ یأجوج ومأجوج اور نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی خبرد ی۔ اس کے علاوہ اور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے امور کی خبر دی جو آخری دور میں ظاہر ہونگے ۔ان تمام امور وواقعات کی خبر چونکہ الصاوق المصدوق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی، لہذا ان کا حاصل ہونا لازمی ہے۔اور چونکہ ان تمام امور کا رونماہونا ایک طے شدہ حقیقت ہے لہذا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علمِ سابق اور قضاء وقدر کے عین مطابق ہے۔(لہذا ہمارایہ ایمان ہے کہ قربِ قیامت رونما ہونے والے یہ تمام واقعات برحق ہیں کیونکہ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہیں۔نیز یہ کہ ان تمام اموروواقعات کا اللہ تعالیٰ نے روزِ اول سے فیصلہ فرماکر تقدیر میں لکھ دیاتھا) ہم مزید ایک مثال سے اس مسئلہ کو واضح کرتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے واقعہ کی خبردی جس کا ظہور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بالکل قریب تھا ، چنانچہ ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماتھے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کو دیکھتے اور کبھی حسن کو، پھر فرمایا: (ابنی ھذا سید ولعل ﷲ یصلح بہ بین فئتین من المسلمین )[1] یعنی میرا یہ بیٹا سردار ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دوجماعتوں کے بیچ صلح کرائے گا۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |