Maktaba Wahhabi

31 - 271
جبرئیل امین ایسا اس لئے چاہتے تھے کہ لوگ انہیں حقیقی سائل یا مستفسر سمجھ کر ان کے سوالوں اورنبیعلیہ السلامکے جوابوں پرتوجہ دیں،اگر انہیں ایسا کوئی تأثر مل جاتا جس سے لوگ ان کی حقیقت پہچان جاتے تو شاید لوگ اسی حقیقت میں غوروخوض کرتے رہتے ،جس سے شاید اصل مقصد پورا نہ ہوپاتا۔(و اللہ اعلم) اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی بڑے مقصد کے حصول کیلئے توریہ جائز ہے(یعنی ایک شیٔ حقیقۃ الامر میں کچھ ہو لیکن کسی شرعی مصلحت کے خاطر اسے کسی دوسری حقیقت میں ظاہرکیاجائے) آدابِ شیخ جبرئیل علیہ السلام کے آنے اوربیٹھنے کے انداز سے ایک نکتہ اوربھی حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایسے موقع پر شیخ کو صبر،حلم اور تحمل کامظاہرہ کرنا چاہئے اور کسی شاگرد سے اگر کسی جفاء کا اظہار ہوتا ہے تواسے تحمل سے برداشت کرلینا چاہئے،اور اس طالبِ علم کو اس کا مطلوبہ علم دینے کے بعد اس جفاء کے تعلق سے اسے نصیحت دے دینی چاہئے۔ ایک سوال اورپیداہوتا ہے کہ دین کی یہ تمام باتیں جبرئیل علیہ السلام نے خودکیوں نہ بتلادیں؟ سوالات کا تکلف کیوں کیا؟جبکہ ان کی ذات سارے انبیاء کے امینِ وحی کے طورپر متعارف ومعروف ہے۔ اس کا جواب (و اللہ اعلم )یہ ہوسکتا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام جب بھی وحی لائے اسے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا،لیکن آج جب آپ انسانی روپ میں تشریف لائے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد صحابہ کرام کی جماعت بیٹھی ہوئی تھی،یعنی نبی اپنے امتیوں کے ساتھ تشریف فرماتھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم حق یہاں نکتہ یہ ہے کہ امتیوں کی موجودگی میں نصیحت کرنے یا سوالات کے جوابات دینے کا حق
Flag Counter