معبودوں کا ابطال ہے ،جوکہ’’حَقٌّ‘‘ کی تقدیر سے حاصل ہوگا اور سورۃ الحج کی مذکورہ آیت اس پرواضح دلیل ہے۔ ’’محمد رسول اللہ‘‘ کی گواہی اتباع کے بغیر مشکوک ہے (محمدرسول ﷲ) اسلام میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی گواہی ضروری ہے۔یہاں بھی شہادت کاوہی مفہوم ہے جو کلمہ (لاإلٰہ إلاللہ ) کی شہادت کے ضمن میں ذکرہوچکاہے،چنانچہ (محمدرسول ﷲ) کاصرف زبانی اقرار کافی نہیں ہے ،بلکہ دل سے اعتراف اورشہادت بھی ضروری ہے، اس کے بعد انسان کے عمل میں بھی اس گواہی کا رنگ نمایاں دکھائی دے،اور وہ اس طرح کہ ہرعمل میں اس شخصیت کی اتباع کا رنگ نمایاں نظر آئے،جس کے رسول اللہ ہونے کا اقراربھی کیا ہے اور دل سے اعتراف بھی۔ اگر عقیدہ وعمل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع مفقود یامتروک ہے،تو انہیں رسول اللہ ماننے کا معاملہ مشکوک دکھائی دے گا ۔ قرآنِ حکیم نے تشکیلِ رسالت کا اصل مقصد اطاعت قرار دیا ہے، ارشاد ہوتا ہےـ: [وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ][1] یعنی ہم نے آپ سے قبل جتنے بھی رسول بھیجے سواسی مقصد کیلئے کہ ان کی اللہ کے حکم سے اطاعت کی جائے۔ اس لئے قرآنِ مجید میں جابجا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کاحکم دیاگیا ہے،بلکہ ایک مقام پر آپ کی اطاعت کو ہدایت کی شرط کے طور پر ذکر کیاگیاہے،یعنی اگر آپ کی اطاعت ہوگی تو ہدایت ہے ورنہ گمراہی۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |