Maktaba Wahhabi

48 - 271
بات کرنابھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے(چہ جائیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر کسی کی بات کو مقدم یاراجح قراردے لیا جائے۔) اسی احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے امیرالمؤمنین سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ بھی گوارہ نہ فرماتے کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس اونچی آواز سے بات کرے،چنانچہ امیر المؤمنین نے دو افراد کو جوکہ طائف سے آئے تھے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس کھڑے اونچی آواز سے گفتگو کرتے سنا توفرمایا :(لولا أنکما من أھل الطائف لأوجعتکما ضربا)یعنی اگر تم طائف سے نہ آئے ہوتے تو آج میں تمہاری ٹھکائی کردیتا۔[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے احترام کا یہ لازمی تقاضا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے: [يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ Ą۝][2] یعنی اے ایمان والواپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو اور نہ آپ سے اونچی آواز سے باتیں کرو جس طرح کہ تم آپس میں کرتے ہو ایسا نہ ہو کہ تمہارے تمام عمل اکارت چلے جائیں اورتمہیں احساس تک نہ ہو۔ احترامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم الشان واقعہ صحابہ کرام کی سیرت میں اس احترام کے مظاہر ثابت ہیں،چنانچہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب ہونے کا شرف حاصل ہے اور جن کی آواز بہت بلند تھی،اس آیتِ مبارکہ کے نزول کے بعد اپنے گھر بیٹھ گئے اور دن رات روناشروع کردیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے صحابہ کی نماز میں موجودگی چیک کیا کرتے تھے، ثابت بن قیس کو کئی روز
Flag Counter