کے علم کا سوال کیا تو انہوں نے صاف صاف فرمادیا:(ما المسئول عنھا بأعلم من السائل) قیامت کے وقوع کے علم کو غیب کی چابی قرار دینے کا معنی یہ ہے کہ جب قیامت کے وقوع کا علم کسی کے پاس نہیں ہے،حالانکہ وہ محض ایک چابی کے طورپرہے،تو مابعد القیامۃ کا علم کسی کو کیسے ہوسکتا ہے، کون جان سکتا ہے کہ بندوں کا قیامت کے دن حساب کیسا ہوگا؟کون کامیاب ہوگا اور کون ناکام ہوگا؟کون جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور کون ایک وقت مقرر کیلئے داخل کیاجائے گا؟ اگرچہ بہت سے شعبدہ باز،خاص طور پہ درگاہوں پر بیٹھے پیر اور ان کے مجاور، قیامت کی کامیابیوں یا ناکامیوں کے تعلق سے مختلف دعوے کرتے ہیں،مگر وہ سب جھوٹے ہیں؛کیونکہ قیامت ایک ایسی چیز ہے جس کی مفتاح یعنی چابی کا علم کسی کے پاس نہیں ،توبعد کی خبروں کا علم کیسے ہوسکتاہے؟ قیامت کے وقوع کا سن یاتاریخ بتانے والے جھوٹے ہیں یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی شخص کھڑا ہوکر اپنے خودساختہ حساب وکتاب کی روشنی میں،قیامت کے وقوع کا سن یاتاریخ بتانے کی کوشش کرتا ہے،یا یہ بتانے کی جرأت کرتاہے کہ دنیا کی کتنی عمر باقی رہ گئی ہے،اس قسم کے لوگوں کیلئے ہمارا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ دل سے بھی اور زبان سے بھی انہیں جھوٹا کہاجائے۔ اگرکوئی شخص انہیں سچاجانے گا تووہ کفر کا مرتکب ہوگا،جب افضل الرسل اور افضل الملائکہ تک کو وقوعِ قیامت کا علم نہیں تو کسی دوسرے کو بھلا کیسے ہوسکتاہے۔ اصل مہم آخرت کی تیاری ہے ہمیں ہرگز یہ مہم نہیں سونپی گئی کہ ہم مختلف مفروضوں کو جمع کرکے قیامت کے وقوع کی تاریخ معلوم کرتے پھریںاور پھر اس کی تشہیر وتصویب پر اصرار کرتے رہیں،ہماری مہم تو اللہ تعالیٰ اور |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |