عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : (یوشک ان تنزل علیکم حجارۃ من السماء أقول قال رسول ﷲ وتقولون قال ابوبکر وعمر) یعنی عنقریب تم پر آسمان سے پتھر برس سکتے ہیں میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے اور تم جواب دیتے ہو کہ اس بارے میں ابوبکروعمر نے یوں کہاہے۔ غورکیجئے جن اماموں کی لوگ باتیں کرتے ہیں اور ان کے اقوال، احادیثِ رسول سے مقدم کرتے ہیں،بھلا ان کی سیدناابوبکر صدیق اورسیدناعمرفاروقرضی اللہ عنہما سے کیا نسبت ہے؟ 5رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ کے بیان کردہ دین میں کوئی اضافہ نہ کرے،خواہ وہ اضافہ عقیدہ میں ہو یا عمل میں یا قول میں۔ ایسا ہر اضافہ بدعت کہلا تاہے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بموجب ہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں ہے۔ بدعتی کوئی بھی ہو اس نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کو پامال کردیا؛کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں وہ چیز داخل کردی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی۔ایسے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسنِ ادب کے تقاضے کیاپورے کرسکیں گے۔ 6جس طرح یہ ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں کسی نئی چیز کو داخل یا شامل نہ کیاجائے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کسی نئی چیز کو داخل یا شامل نہ کیاجائے۔ چنانچہ جولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کی مناسبت سے مختلف مجالس یا احتفالاتِ میلادکا انعقاد کرتے ہیں،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے ایک اضافہ متصور ہوگا ۔ توجولوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں اپنی مرضی سے اضافہ کے |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |