جواب:نہیں؛کیونکہ یہ حج اسے کوئی فائدہ نہ دیگا،لہذا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کاخوف اختیار کیا جائے،جوشخص قدرت واستطاعت کے باوجود حج نہ کرسکا حتی کہ مرگیا،اس کی طرف سے اگر ہزاربار بھی حج کرلیاجائے تووہ بری الذمہ نہ ہوسکے گا۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اسی مسئلہ کوپسند کیاہے اور اسے اللہ تعالیٰ کا دین قراردیاہے۔ حج کی استطاعت دوطرح سے ہے ،ایک بدنی دوسری مالی،بدنی استطاعت سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل سفر کرنے،سواری پر بیٹھنے اور مناسکِ حج اداکرنے کے قابل ہو،جبکہ مالی استطاعت سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس اتنا مال ہو جو مصارف حج وسفرکیلئے کفایت کرجائے نیز جن اہل وعیال کو چھوڑکرحج کرنے جارہا ہے ان کے نان ونفقہ کا بھی پورا بندوبست ہو۔ حج بدل کے احکامات میت کی طرف سے حج کیاجاسکتا ہے ،جہاں تک زندہ شخص کا تعلق ہے تو اس کی طرف سے حج کرنا جائز نہیں،البتہ دوحالتوں میں کیا جاسکتا ہے،ایک یہ کہ وہ زندہ شخص انتہائی بوڑھااورکمزورہوکہ وہ سواری اور سفر کے قابل ہی نہ ہو،اور دوسری یہ کہ وہ کسی ایسے شدید مرض میں مبتلاہوچکاہوجس سے شفایابی کی کوئی امید نہ رہی ہو۔ عبد اللہ بن عباسرضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیںکہ بنوخثعم قبیلہ کی ایک عورت ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوکر عرض کرتی ہے: میرے والد مالی طورپر حج کی استطاعت حاصل کرچکے ہیں،مگر وہ اس قدر بوڑھے ہوچکے ہیں کہ سواری پربیٹھنے کے قابل نہیں رہے،کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حجی عنہ)تم اپنے والد کی طرف سے حج کرلو۔[1] البتہ کسی کی طر ف سے حج کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنا حج کرچکاہو،چنانچہ سنن ابی |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |