قریب بیٹھ کر خطبہ سننے والوں کی فضیلت کا ذکر ہے۔دیگراحادیث سے بھی شیخ کی مجلس کا قرب اختیار کرنے کی فضیلت ثابت ہے۔ دوسرا ادب جبرئیل علیہ السلام کے اندازِ نشست سے سامنے آتا ہے، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوزانوں ہوکربیٹھے،جوکہ حسنِ تواضع کامظہرہے،ایک طالبِ علم کو اسی طرح اپنے شیخ کے احترام اور تعظیم کے جملہ پہلو اپنانے چاہئیں۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھے ؟اس مسئلہ میں علمائِ کے دونوں طرح کے اقوال ملتے ہیں ،امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں صراحت کی ہے کہ انہوں نے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے تھے ،جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح میں کچھ روایات نقل فرمائی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے تھے۔’’ثم وضع یدہ علی رکبتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘یہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبِ علم کو اپنے شیخ کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے چاہئیں ؟ جواب: نہیں۔ توپھر جبرئیل علیہ السلام کے اسلوب کے بارہ میں کیاکہاجائے گا؟ اس کاجواب یہ ہے کہ جبرئیل علیہ السلام صحابہ کرام کے سامنے انسانی شکل میں آئے تھے اورچاہتے تھے کہ لوگ ان کی اصل وضع یعنی ان کا فرشتہ ہونا پہچان نہ سکیں،بلکہ انہیں کوئی اعرابی خیال کریں؛ کیونکہ اعرابی اکثراپنے دیہاتوں سے آکر نبی علیہ السلام سے دین کی بابت سوال کیاکرتے تھے ،اور چونکہ اعرابی اس تہذیب وتمدن سے ناآشنا ہوتے تھے جو عام طور پر شہریوں میں پائی جاتی ہے،لہذا بعض اوقات ان کے رویے میں درشتگی ہوتی ۔جبرئیل علیہ السلام نے بھی کچھ ایسے افعال کامظاہرہ کیا جن سے انہیں ایسا ہی اعرابی سمجھا جائے۔مثلاً:ان کا گردنیں پھلانگ کر نبی علیہ السلام کے قریب پہنچ جانااور اپنے ہاتھوں کا نبی علیہ السلام کے گھٹنوں پر رکھ دینااور گفتگوکاآغاز ’’یارسول اللہ ‘‘ کی بجائے ’’یامحمد‘‘ سے کرنا،جیسا کہ اعرابیوں کا اندازِ تخاطب ہواکرتاتھا۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |