آگے فرمایا:[اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ][1] یعنی:یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ کفار کا انکارِ آخرت ،محض اپنی ناقص بلکہ باطل عقل اورانتہائی گھٹیا سوچ کی بناءپر تھا،جس کاقرآن نے جابجا ذکرکیااور خوب رد بھی کیا، سورۃ الواقعہ کامضمون ملاحظہ ہو: [وَكَانُوْا يَقُوْلُوْنَ ڏ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ 47ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ 48قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِيْنَ وَالْاٰخِرِيْنَ 49ۙلَمَجْمُوْعُوْنَ ڏ اِلٰى مِيْقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ 50ثُمَّ اِنَّكُمْ اَيُّهَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ 51ۙلَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ 52ۙفَمَالِــــُٔـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ 53ۚفَشٰرِبُوْنَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيْمِ 54][2] ترجمہ:اور کہتے تھے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈی ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر دوباره اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یقیناً سب اگلے اور پچھلے ضرور جمع کئے جائیں گے ایک مقرر دن کے وقت پھر تم اے گمراہو جھٹلانے والو! البتہ کھانے والے ہو تھوہر کا درخت اور اسی سے پیٹ بھرنے والے ہو پھر اس پر گرم کھولتا پانی پینے والے ہو ۔ کفارِ قریش کے انکارِ آخرت کی وجہ؟ گویا کفارومشرکین کا انکارِ آخرت،محض اس فرضی اشکال پرقائم تھا کہ بعث بعد الموت،عقلاً محال ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک بلکہ عدمِ ایمان وایقان کا مظہرہے، اُن کا اشکال تویہ تھا کہ انسان کا وجود مکمل طور پر فناہونے کے بعد دوبارہ کیسے بن سکتاہے،وہ یہ حقیقت سمجھنے سے قاصر تھے کہ وہ اللہ جس نے پہلی بار اس ڈھانچے کوبنایا ،دوبارہ بھی بنانے پر قادرہے،بلکہ اللہ تعالیٰ کے |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |