Maktaba Wahhabi

241 - 271
حدیث شریف(لایرد القضاء إلا الدعاء)کا معنی اس حدیث کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ دعا لوحِ محفوظ کے فیصلے کوبدل ڈالتی ہے ،بلکہ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دعا کی برکت سے اس شر سے جو تقدیر میں چلتا آرہا تھا سلامتی عطافرمادی،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شر سے سلامتی مقدر فرمادی اور سلامتی کے اسباب بھی مقدر فرمادیئے۔مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے سے وہ شر جو اس کی تقدیر میں مسلسل چلاآرہا تھا ٹال دیا،ایک ایسے سبب کے عوض جو بندے سے ظاہر ہوگا اور وہ دعا ہے،چنانچہ بندے کا دعا کرنا اور اسے سلامتی کا حاصل ہوجانا بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بندے کی عمر کا لمبا ہونا تقدیر میں لکھا ہوا ہے اور اس لمبی عمرکا راز بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے،جو کہ نیکی اور صلہ رحمی سے عبارت ہے۔ خلاصہ یہ کہ تمام اسباب اور ان کے نتا ئج ومسببات اللہ تعالیٰ کی قضاء وقدر سے ہیں۔ یہی معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا کیا جائے گا: (من سرہ أن یبسط لہ فی رزقہ أو ینسأ لہ فی أثرہ فلیصل رحمہ)[1] یعنی جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ،اور عمر میں طوالت وبرکت عطا فرمادی جائے وہ اپنے رشتے داروں سے جوڑ کر رکھے۔ بہر حال ہر انسان کی اجل (موت کا وقت) لوحِ محفوظ میں ایک امرِ مقدر ہے،جو نہ آگے ہوسکتا ہے نہ پیچھے ۔جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: [وَلَنْ يُّؤَخِّرَ اللہُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُہَا][2]ترجمہ:اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا۔ نیز فرمایا:
Flag Counter