[لِكُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ۰ۭ اِذَا جَاۗءَ اَجَلُھُمْ فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ][1] ترجمہ:ہر امت کیلئے ایک معین وقت ہے جب ان کا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں ۔ جو بھی انسان مرتا ہے یا قتل ہوتا ہے،معتزلہ کا یہ قول کہ’’ جو انسان قتل ہوتا ہے اس کی طبعی عمر کٹ جاتی ہے،اور اگر وہ قتل نہ کیا جاتا تو دوسری اجل یعنی لمبی عمر جیتا‘‘باطل ہے، ہر انسان کیلئے ایک ہی اجل مقدر ہے،البتہ موت کے اسباب مختلف ہیں اور وہ بھی سب کے سب مقدر ہیں، چنانچہ کچھ لوگوں کا مرض کے نتیجہ میں،کچھ کا ڈوب کر،اورکچھ کا قتل ہوکر مرنا مقدر ہوتا ہے (بہرحال سب کی اجل ایک ہی ہے البتہ اسبابِ اجل مختلف ہیں) گناہ کے کاموں پر تقدیر سے حجت پکڑنا جائز نہیں کسی شخص کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے چھوڑنے یا اللہ تعالیٰ کے کسی حرام امر کے ارتکاب کرنے کے سلسلے میں تقدیر کو بطور دلیل وحجت پیش کرے(مثلاًیوں کہے کہ میں نمازنہیں پڑھتا تقدیر میں یونہی لکھا ہوا ہے ،یا میں شراب پیتاہوں تو تقدیر میں یونہی لکھا ہوا ہے) اگر کو ئی شخص کسی ایسی معصیت کا ارتکاب کرے جس پر شرعی حد نافذ ہوتی ہے،اور وہ اپنی اس معصیت کا بہانہ یا عذر تقدیر کو قرار دے اور کہے کہ تقدیر میں ایسا ہی لکھا ہوا تھا ،تو اس شخص پر شرعی حد نافذ کرکے اسے آگاہ کردیا جائیگا کہ یہ حد اور سزا بھی تقدیر میں لکھی ہوئی تھی۔ حدیث’’احتجاجِ آدم علی موسیٰ‘‘کی توضیح اب یہاں ایک حدیث کی وضاحت ضروری ہے جس میں آدم وموسی علیہما السلام کا ایک جھگڑا مذکور |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |