Maktaba Wahhabi

271 - 271
حدیث کے مطابق جبریل علیہ السلام اپنی شکل میں نہیں بلکہ انسانی شکل میں نمودارہوئے تھے۔ البتہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ فرشتوں کا کسی دوسری شکل میں متشکل ہونا ان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے ساتھ ہے۔ اس واقعہ سے بعض اہلِ ھوی نے بڑا بیہودہ استدلال کیا ہےاور وہ یہ کہ آج کل کے مروجہ ڈراموں کا جواز فراہم ہورہا ہے ؛کیونکہ ڈراموں میں فنکار دوسری شکلیں دھار کر کسی کردار کی ترجمانی کررہا ہوتاہے۔ یہ انتہائی بودا استدلال بلکہ شبہ ہے،جس کی حیثیت تارِ عنکبوت سے بھی کمزورہے؛کیونکہ جبریلعلیہ السلامکا بصورتِ بشر آنا اللہ تعالیٰ کےامر سے تھا اور صدق وحق کی اساس پر تھا ،جبکہ یہ ڈرامے فحش،کذب اور بیہودگی کا مرقع ہوتے ہیں،افسوس یہ ہے کہ یہ استدلال ان لوگوں کی طرف سے آیا ہے جو انبیاء کرام کی سیرتوں اور واقعات کو ڈرامائی رنگ سے پیش کرتے ہیں۔یہ عصرِ حاضر کا بہت بڑا فتنہ ہے ،جس کی آڑ میں امت کوبے راہ روی ،ذلت وضلالت کی آگ میں جھونکا جارہا ہے۔فإنا للہ وإنا إلیہ راجعون. (۴) جبریل علیہ السلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انتہائی مؤدب ہوکر بیٹھنا،جس سے یہ ثابت ہوا کہ شاگرد اپنے شیخ کے ادب کے تقاضے لازمی طورپہ سمجھتاہواور انہیں پوراکرتاہو۔ (۵) جبریل علیہ السلام کا اپنی بات شروع کرتے ہوئے (یامحمد) کہنا، توریہ کے جواز کی دلیل بن سکتا ہے؛کیونکہ (یامحمد)کہنے کا اسلوب اعرابیوں کا تھااور جبریل علیہ السلام اپنے معاملہ کو مخفی رکھنے کیلئےایک اعرابی ہونے کا تاثر دیناچاہتے تھے،کیونکہ متمدن افراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (یامحمد) کہہ کر ہرگز نہیں پکاراکرتے تھے۔ (۶) جبریل علیہ السلام نے پہلاسوال،اسلام کی بابت کیا،جس سے اسلام کی فضیلت اور اہمیت عیاں ہوتی ہے،اسلام کی تعریف کا پہلا نکتہ(لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ) کی شہادت ہے،اور یہی
Flag Counter