Maktaba Wahhabi

247 - 271
کوئی ندامت یا شرمندگی ہے۔،نہ اس شرک کو مستقبل میں چھوڑنے کا کوئی عزم یا ارادہ ہے اور نہ ہی اس شرک کے باطل یا فاسد ہونے کا اقرار واعتراف ہے۔گناہ پر تقدیر کو حجت ماننے کی یہ صورت ،پہلی صورت سے بالکل برعکس ہے،کیونکہ پہلی صورت میں گناہ کا اقرار بھی ہے کہ اس کے ارتکاب پر ندامت بھی ہے اور اسے ہمیشہ چھوڑدینے کا عزم بھی ہے لہذا دریں صورت اگر کوئی ملامت کرے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہوا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ارتکابِ معصیت کے بعد اس کی قباحت وملامت اگر (توبہ کے ذریعہ) ختم ہوجا ئے تو نوشتۂ تقدیرکو بطورِ حجت ذکر کرنا د رست ہے اور اگر ارتکابِ معصیت کے بعد اس کی قباحت وملامت قائم ہے (اور بندہ نہ تائب ہے نہ نادم اور نہ اس کے ترک پہ عازم) تو تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش کرناباطل ہے (کیونکہ یہ تو اس گناہ کا جواز پیش کرنے کے مترادف ہوگا) فرقۂ قدریہ پررد قولہ: ’’ تعالیٰ ان یکون فی ملکہ مالایرید، أو یکون لاحد عنہ غنی، خالقا لکل شیٔ، ألا ھورب العباد ورب اعمالھم ،والمقدر لحرکاتھم وآجالھم‘‘ ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت بلند ہے کہ اسکی بادشاہت میں کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر یا برخلاف ہو،یا کوئی مخلوق اس سے مستغنی ہو،ہر شیٔ کا صرف وہی خالق ہے،تمام بندوں اور انکے تمام اعمال کا وہی رب ہے ،اور ا نکی تمام حرکات وآجال کی تقدیر بنانے والابھی وہی ہے ۔ افعالِ عباد، اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور یہ بندوں کی مشیئت سے واقع ہوتے ہیں۔۔۔ واضح ہوکہ یہ تمام جملے ،فرقۂ ضالہ قدریہ پر رد ہیں، جن کا عقیدہ یہ ہے کہ بندے اپنے افعال کے خود ہی خالق ہیں، اسی طرح بندوں کے افعال کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو تسلیم نہیں
Flag Counter