کوئی ندامت یا شرمندگی ہے۔،نہ اس شرک کو مستقبل میں چھوڑنے کا کوئی عزم یا ارادہ ہے اور نہ ہی اس شرک کے باطل یا فاسد ہونے کا اقرار واعتراف ہے۔گناہ پر تقدیر کو حجت ماننے کی یہ صورت ،پہلی صورت سے بالکل برعکس ہے،کیونکہ پہلی صورت میں گناہ کا اقرار بھی ہے کہ اس کے ارتکاب پر ندامت بھی ہے اور اسے ہمیشہ چھوڑدینے کا عزم بھی ہے لہذا دریں صورت اگر کوئی ملامت کرے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہوا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ارتکابِ معصیت کے بعد اس کی قباحت وملامت اگر (توبہ کے ذریعہ) ختم ہوجا ئے تو نوشتۂ تقدیرکو بطورِ حجت ذکر کرنا د رست ہے اور اگر ارتکابِ معصیت کے بعد اس کی قباحت وملامت قائم ہے (اور بندہ نہ تائب ہے نہ نادم اور نہ اس کے ترک پہ عازم) تو تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش کرناباطل ہے (کیونکہ یہ تو اس گناہ کا جواز پیش کرنے کے مترادف ہوگا) فرقۂ قدریہ پررد قولہ: ’’ تعالیٰ ان یکون فی ملکہ مالایرید، أو یکون لاحد عنہ غنی، خالقا لکل شیٔ، ألا ھورب العباد ورب اعمالھم ،والمقدر لحرکاتھم وآجالھم‘‘ ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت بلند ہے کہ اسکی بادشاہت میں کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر یا برخلاف ہو،یا کوئی مخلوق اس سے مستغنی ہو،ہر شیٔ کا صرف وہی خالق ہے،تمام بندوں اور انکے تمام اعمال کا وہی رب ہے ،اور ا نکی تمام حرکات وآجال کی تقدیر بنانے والابھی وہی ہے ۔ افعالِ عباد، اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور یہ بندوں کی مشیئت سے واقع ہوتے ہیں۔۔۔ واضح ہوکہ یہ تمام جملے ،فرقۂ ضالہ قدریہ پر رد ہیں، جن کا عقیدہ یہ ہے کہ بندے اپنے افعال کے خود ہی خالق ہیں، اسی طرح بندوں کے افعال کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو تسلیم نہیں |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |