حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ایک بزرگ کو نمازپڑھتے ہوئے دیکھا، پوچھا :(منذ کم تصلی ھذہ الصلاۃ؟)یعنی:یہ نماز کم سے پڑھ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا:چالیس سال سے ،فرمایا: (ماصلیت) تم نے (چالیس سال سے)کوئی نمازنہیں پڑھی۔مزید فرمایا:(لومت علی ھذا لمت علی غیرفطرۃ محمدصلی اللہ علیہ وسلم )یعنی:اگر یہی نماز پڑھتے پڑھتے تمہاری موت آگئی تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر نہیں ہوگی۔[1] یہ تمام نصوص اس امر کے مقتضی ہیں کہ نماز ،جودین اسلام کا ستون ہے اور جس کی بابت روزِ قیامت سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کو حساب دینا ہے کی حفاظت،صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے اتباع کے ذریعے ہی ممکن ہے،اس سلسلے میں کسی امام ومرشد یاباپ دادوں کے طریقہ کی پیروی قطعاً کام نہیں آئے گی،کتب ِ فقہ کے وہ مسائل جو کتاب وسنت سے متصادم ہیں،بری طرح ناکام ہیں اور اپنے پیروکاروں کو ناکامی کی انتہائی خطرناک دلدل میں دھکیل دینے والے ہیں۔ والعیاذ باللہ ۔ حضرات!ادائیگیٔ نماز بلکہ ہرعمل کی قبولیت میں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی اہم کردار ہے، دوسرا اہم کردار حفاظتِ نیت یعنی اللہ تعالیٰ کیلئے اخلاص پیداکرناہے؛لقولہ تعالیٰ: [وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ][2] یعنی:(تمام اولین وآخرین کو )صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (إنما الاعمال بالنیات وإنما لکل امریٔ مانوی....)[3] |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |