یہ جملہ پہلے جملے کی علت ہی قرار پائے گا،پہلے جملے میں بندہ اپنی عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ایسے قرب کے استحضار پر مأمور ہے جس میں گویاوہ اس کے سامنے ہے اور اسے دیکھ رہا ہے،مگر چونکہ اس کیفیت کا استحضار انتہائی شاق اور دشوارہے ،لہذا ایک دوسری کیفیت ذکر کردی گئی،(یعنی اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ توتجھے دیکھ رہا ہے)جو کہ نسبتاً بہت آسان ہے،تاکہ بندہ اس کیفیت کے استحضار سے آغاز کرڈالے،تاآنکہ دوسری کیفیت تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ جب بندہ دورانِ عبادت اپنے اندریہ تصور جمانے میں کامیاب ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہر ظاہروباطن اورخفیہ واعلانیہ پر مطلع ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے،تو اس کے بعد دوسرے مقام کی طرف منتقل ہونا آسان ہوجائے گا،اور وہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ایسا قرب پانے میں کامیاب ہوجائے کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ احسانِ عبادت کا پہلا درجہ یہ ہے کہ بندہ گویا اپنے رب کو دیکھ رہا ہے،اگر اس درجہ کا حصول دشوار ہو تو پھر یہ بھی عبادت کا احسان ہے کہ اس کے اندر یہ تصور جاگزیں رہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے،لہذا وہ اس کی حیاء کے تقاضے ہمیشہ ملحوظ رکھے۔ جبریل کاآخری سوال:قیامت وعلاماتِ قیامت کے متعلق جبریل امین علیہ السلام کا اس حدیث میں آخری سوال قیامت اور علاماتِ قیامت کے بارہ میں ہے۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا:(فأخبرنی عن الساعۃ)یعنی:مجھے قیامت کے (وقوع)کے متعلق خبردیجئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(ما المسئول عنھا بأعلم من السائل)یعنی:اس بارہ میں مسئول (جس سے سوال کیاجارہاہے)سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |