Maktaba Wahhabi

249 - 271
ان کا کہنا ہے کہ بندوں کا کھانا،پینا یا نماز،روزہ ایسے اعمال ان کے ارادے سے صادر نہیں ہوتے ،بلکہ وہ ان اعمال کے اصدار پر مجبور ہیں۔ جیسے ایک رعشہ کا مریض ،اپنے ارادہ یا اختیار سے اپنے ہاتھ نہیں ہلاتا ،بلکہ بہ سبب مرض مجبوراً اس کے ہاتھ ہلتے رہتے ہیں ،لہذا (بقول ان کے) بندوں کے افعال وحرکات میں، ان کے کسب وارادہ کو کوئی دخل نہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ پھر انبیاء ومرسلین کی بعثت کا کیا فائدہ رہا ؟ کتب سماوی کے نزول کی کیا حکمت رہی؟ شرعی ادلہ سے انتہائی قطعیت کے ساتھ یہ بات معلوم اور ثابت ہے کہ عمل کے تعلق سے بندے کو ایک طرح کا ارادہ ومشیئت حاصل ہے چنانچہ وہ اپنے ہر نیک عمل پر قابلِ تعریف بھی ہے اور مستحقِ اجر وثواب بھی جبکہ ہر بُرے فعل پر قابلِ مذمت بھی ہے ،اور مستحقِ عذاب بھی۔ اس کے تمام اختیاری افعال ،باعتبارِفعل وکسب اسی کی طرف منسوب ہوں گے ،جبکہ اس کی تمام اضطراری حرکات ،مریضِ رعشہ کی حرکت کی مانند قرار پائیں گے وہ اضطراری حرکت بندے کا فعل نہیں قرار پائی گی، بلکہ اس کی صفت (کیفیت یا حالت) شمار ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ علماءِنحو فاعل کی تعریف یوں کرتے ہیں ’’ھو اسم مرفوع یدل علی من حصل منہ الحدث أو قام بہ‘‘ یعنی: فاعل ایک ایسا اسم ہے جو مرفوع ہوتا ہے ،ا ور ایک ایسی ذات پر دلالت کرتا ہے جس سے یاتوکوئی کام صادر ہوتا ہے ،یا کوئی کام اسکے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ کام کے صادر ہونے سے ان کی مراد بندے کے وہ اختیاری افعال ہیں جو اس کی مشیئت وارادہ سے صادر ہوتے ہیں(جیسے نماز ،روزہ، کھانا ،پینا وغیرہ) اور کام کے اس کے ساتھ قائم ہونے سے ان کی مراد ایسے کام جس میں اس کی مشیئت وارادہ کو کوئی دخل نہیں، جیسے موت، مرض اور ارتعاش وغیرہ۔ چنانچہ جب یوں کہا جائے گا کہ :زید نے کھایا،پیا،نماز پڑھی یا روزہ رکھا، تو ان تمام مثالوں میں
Flag Counter