Maktaba Wahhabi

132 - 393
سے بہت زیادہ مال کمانا چاہتے ہیں اور وہ رشتہ طلب کرنے والے کے مطالبہ کے قبول و عدم قبول کے لیے واحد معیار اس کی طرف سے ادا کیے جانے والے مہر ہی کو قرار دیتے ہیں۔ کتنی ہی بیٹیاں صرف اس انتظار میں ہیں کہ ان کے باپ ایسے لوگ کو پالیں، جو ان کے سامنے بہت بڑی رقوم پیش کرسکیں، اس سے بہت سے جوان لڑکے اور لڑکیاں شادی نہیں کرسکتے اور اس سے معاشرے میں فتنہ و فساد پھیل جاتا ہے۔ سابقہ تفصیل کی روشنی میں یہ سوال بھی ہمارے سامنے آتا ہے کہ مہر کس کے لیے ہے؟ کیا والد یا اولیاء کے لیے مہر کو لینا جائز ہے؟ بلکہ یہاں تو یہ سوال بھی غور طلب ہے کیا ان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ رشتہ طلب کرنے والے کی بات کی قبولیت و عدم قبولیت کے لیے مال ہی کو واحد معیار قرار دیں؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَاٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً۔ [1] (اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں مہر کی نسبت عورتوں کی طرف کی ہے، یہ اضافت اضافت تملیک ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مہر عورت کی ملکیت ہے، اس کے سوا کسی اور کے لیے اسے لینا جائز نہیں ہے خواہ وہ اس کا باپ ہو یا کوئی اور بہرحال عورت کے سوا کسی اور کے لیے بھی اسے لینا یا اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ شیخ عبدالرحمن بن ناصر سعدی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ اس سے معلوم ہوا کہ مہر عورت کو ادا کیا جائے، جب کہ وہ مکلف ہو، عقد نکاح کے ساتھ عورت اس کی مالک ہوجائے گی کیونکہ اس کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے اور یہ نسبت تملیک کا تقاضا کرتی ہے، [2] پھر انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عورت کے ولی کے لیے مہر میں سے کچھ نہیں ہے الا یہ کہ عورت اپنی خوشی سے اسے کچھ دینا چاہیے۔ [3]
Flag Counter