Maktaba Wahhabi

223 - 393
نہیں ہو، آپ نے بلند آواز سے بات کی تو اس نے پہچان لیا کہ آپ واقعی امیرالمؤمنین ہیں، پھر اس نے دروازہ کھول دیا، تو آپ نے فرمایا:تم کیا اشعار پڑھ رہی تھیں؟ اس نے وہ اشعار دوبارہ پڑھے تو آپ نے پوچھا کہ تمہارا شوہر کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اسے فلاں فلاں جگہ جہاد کے لیے بھیجا گیا ہے، آپ نے اس لشکر کے سپہ سالار کو خط لکھا کہ فلاں بن فلاں کو جلدی سے واپس بھیج دو، جب وہ واپس آیا تو آپ نے فرمایا کہ اپنے گھر چلے جاؤ، پھر آپ نے اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ’’ بیٹی! عورت اپنے شوہر سے کتنا عرصہ صبر کرسکتی ہے؟ ‘‘ انھوں نے جواب دیا کہ ایک مہینہ، دو مہینے، تین مہینے اور چوتھے مہینے پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا ہے۔ آپ نے مجاہدین کے لیے اسی مدت کا تعین فرمادیا۔ [1] امام ابن قیم رحمہ اللہ اس موقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ بات اس کے مطابق ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایلاء کی مدت بھی چار مہینے مقرر فرمائی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو معلوم تھا کہ چار ماہ بعد عورت کا صبر کمزور ہوجاتا ہے۔ اس کے صبر کی قوت اس سے زیادہ مدت کی متحمل نہیں ہوسکتی لہٰذا ایلاء کرنے والے کے لیے اس مدت کو مقرر کردیا گیا اور چار ماہ کی اس مدت کے گزرنے کے بعد عورت کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس کی زوجیت میں رہے یا وہ چاہے تو اس سے نکاح کو فسخ کردے کیونکہ جب چار ماہ گزر جائیں تو صبر ختم ہوجاتا ہے۔ [2] اگر مجاہد کے لیے چار یا چھ ماہ کی مدت(حسب اختلاف روایات)سے زیادہ عرصہ تک اپنی بیوی سے غائب رہنا جائز نہیں تو جہاد کے علاوہ کسی اور غرض سے اس سے زیادہ مدت تک کے لیے غائب رہنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ
Flag Counter