Maktaba Wahhabi

229 - 393
طلاق کے بعد رجوع کو جائز قرار دیا اور تیسری طلاق کی صورت میں اسے مکمل طور پر بائنہ قرار دے دیا۔ [1] پھر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ابن مردویہ کی روایت ذکر کی ہے کہ طلاق کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں تھا، آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیتا۔ ایک انصاری شخص اور اس کی بیوی کے درمیان اسی طرح کا اختلاف ہوا جیسا کہ لوگوں کے مابین ہوتا ہے، اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تجھے اس حالت میں چھوڑوں گا کہ تو نہ شوہر کے ہوگی اور نہ شوہر والی اور پھر اس نے اسے طلاق دینا شروع کردی اور جب عدت ختم ہونے کے قریب ہوتی تو وہ رجوع کرلیتا اور اس نے اس طرح کئی بار کیا، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی: اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ۔[2] (طلاق(صرف)دوبار ہے(لیکن جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو)پھر(عورتوں کو)یا تو بطریق شائستہ(نکاح میں)رہنے دیتا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا۔) امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آیت سے مراد سنت طلاق کو معلوم کرانا ہے یعنی جو شخص دو طلاقیں دے دے، تو اسے تیسری طلاق دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے، وہ اسے یا تو اس کی حق تلفی نہ کرتے ہوئے چھوڑ دے یا پھر اچھے طریقے سے اس کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے اسے اپنے پاس رکھے۔ [3]
Flag Counter